سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ بی آر ٹی پشاور پر ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے والی مثال صادق آتی ہے۔ 2017ء میں تحریک انصاف پشاور میں میٹرو منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت شفافیت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بی آر ٹی پشاور منصوبے کو نہ صرف چھ ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کرے گی بلکہ اس کی لاگت بھی میٹرو لاہور سے نصف سے کم ہو گی۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت 50ارب بتائی گئی تاہم جب عمل کا وقت آیا تو بی آر ٹی پشاور منصوبہ 70ارب کی خطیر رقم کی لاگت کے باوجود نامکمل اور تحریک انصاف حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ صوبائی حکومت بی آر ٹی کی تکمیل کی مدت میں سات بار توسیع کر چکی ہے۔ منصوبے میں شفافیت کا یہ عالم ہے کہ پشاور ہائی کورٹ ماضی میں ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم بھی دے چکی یہاں تک کہ نیب کو تحقیقات سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے روکا تھا۔ اب ایک بار پھر سپریم کورٹ نے بی آر ٹی پشاور کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کی بات کی ہے بہتر ہو گا تحریک انصاف بالخصوص وزیر اعظم عمران خاں بی آر ٹی پشاورمیں تاخیر کی وجوہات اور شفافیت کے بارے تحقیقات کو یقینی بنائیں اور صوبائی حکومت کو منصوبہ کو بروقت مکمل کرنے کا پابند کریں تاکہ تحریک انصاف کے شفافیت اور میرٹ کے دعوئوں کا بھرم رہ سکے۔