عدالت عظمیٰ نے زیر زمین پانی کی قلت کے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے نہری پانی کی کم قیمت وصول کرنے پر کہا ہے کہ صوبائی حکومتیں سو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر کی تحقیقات کے مطابق 2025ء تک پاکستان میں قابل استعمال پانی ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ 2005ء میں بھی حکومتی اداروں نے یاد دہانی کروائی تھی کہ پاکستان پانی کی قلت کے شکار ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پرآ چکا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے پالیسی ساز اداروں کی مجرمانہ غفلت کے باعث اس حوالے سے کچھ خاطر خواہ اقدامات نہ ہو سکے اور معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ۔ معزز عدالت نے پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے سروس سٹیشن میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے، بحران سے نمٹنے کے لئے وسائل کی کمی دور کرنے کے لئے منرل واٹر بنانے والی کمپنیوں پر ایک روپے فی لیٹر ٹیکس اور زرعی آبیانے میں اضافے کے لیے صوبوں سے تجاویز طلب کرنے سمیت متعدد احکامات جاری کئے مگر حکومتی بدنیتی کے باعث عدالتی احکامات پر عملدرآمدہونا تو درکنار الٹا سرکاری آشیرباد میں عدالتی احکامات پر عملدرآمد میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں اور اس کا ثبوت گزشتہ روز عدالت کا یہ کہنا ہے کہ باقی تین صوبوں کی طرف سے تجاویز آ چکی ہیں لیکن سندھ حکومت دانستہ تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ بہتر ہو گا حکومت ملک کو آبی بحران سے بچانے کے لئے واٹر ہاروسٹنگ سمیت واٹر کمشن کی تجاویزاور معزز عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے تاکہ ملک کو آبی بحران سے نجات اور زندگی کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔