مولانا فضل الرحمان نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے تحفظات کے باوجود بالآخر آزادی مارچ اور دھرنا کی تاریخ کا اعلان کر ہی دیا، اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں اب کمرہ امتحان میں جا بیٹھی ہیں۔ بلاول بھٹو اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ مولانا کے احتجاج میں تو شریک ہوں گے لیکن دھرنے کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی کمر میں پھر درد نکل آیا ہے۔ سنا جا رہا ہے کہ نواز شریف مولانا کا ساتھ دینے کا حکم صادر کر چکے ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کا کہنا ہے کہ ن لیگ مولانا کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ ہمارے خیال میں مولانا اکیلے نکلیں یا پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ، دونوں صورتوں میں عمران خان اور ان کی حکومت کے لئے فی الحال کوئی خطرہ نہیں ، کیونکہ مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنا کا تو مقصد ہی کچھ اور ہے۔ شیخ رشید مولانا کے احتجاج کے بارے میں جو جو بھی فرما رہے ہیں، میں اسے سچ اس لئے سمجھ رہا ہوں کہ،، مولانا اور شیخ رشید ایک ہی’’استاد ‘‘ کے شاگرد ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا کے ساتھ بہت ٹال مٹول کر لی، اب وہ دونوں جماعتوں سے اس ٹال مٹول کا بدلہ لیں گے۔ ویسے بھی مولانا صاحب کے احتجاج کا اصل ٹارگٹ بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی ہیں، وہ بلاول بھٹو اور نواز شریف کو ٹریپ کرنا چاہتے تھے اور اس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔ ستائیس اکتوبر ابھی بہت دور ہے، اس دوران اور اس تاریخ سے پہلے سیاست کئی قلابازیاں کھائے گی۔ ٭٭٭٭٭ پی ٹی آئی حکومت کے لئے ستائیس اکتوبر سے زیادہ دس اکتوبر کا دن ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان اس دن حکمران پارٹی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا سکتا ہے۔ یہ کیس وزیر اعظم عمران خان کے سابق ساتھی اور دوست اکبر ایس بابر نے سن دو ہزار چودہ میں دائر کیا تھا۔ پانچ سال بعد الیکشن کمیشن کے چیئرمین اس مقدمے کے میرٹ پر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں حکم صادر کریں گے۔ الزام یہ ہے کہ آج کی حکمران جماعت نے غیر ممالک سے موصول ہونے والے فنڈز تیئس خفیہ اکاؤنٹس میں رکھے تھے جن کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے اس کیس کو طول دینے کے لئے الیکشن کمیشن میں درخواست پر درخواست دی، ایک درخواست یہ بھی تھی کہ اس کیس کی میڈیا میں رپورٹنگ نہیں ہونی چاہئے۔ ٭٭٭٭٭ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی جو دو چار بڑے اقدامات کئے تھے، ان میں سے ان کا نمایاں ترین ’’کارنامہ‘‘ صحافیوں اور اخباری کارکنوں میں نفاق ڈالنا اور یونین (پی ایف یو جے)کا بٹوارہ کرنا تھا۔ اس کام کے لئے انہیں سارے لوگ لاہور سے ہی مل گئے تھے۔ لاہور کی مٹی نے جہاں بڑے بڑے قومی ہیروز اور سرفروشوں کو جنم دیا ، وہیں اس شہر کی مٹی سودے بازوں، مفاد پرستوں، کاسہ لیسوں اور سازشیوں کے لئے بھی ہمیشہ سے بہت نم اور بہت زرخیز رہی ہے۔ مارشل لاء کی سر پرستی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا ایک متوازی گروپ لاہور میں تشکیل دیا گیا اور اس کی سربراہی ضیاء الاسلام انصاری کو سونپی گئی جو اس وقت سرکاری اخبار’’مشرق‘‘ کے چیف ایڈیٹر تھے، اس وقت انگریزی روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ بھی حکومتی تحویل میں ہی تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ان دونوں بڑے سرکاری اخبارات سے منسلک صحافی اور کارکن آزادی صحافت کے علمدار تھے اور مارشل لاء مخالف اخبارات اور جرائد کی جبری بندش اور سنسر شپ کے مخالف تھے۔ بند کئے گئے اخبارات و جرائد کی تعداد درجنوں میں تھی جس کے نتیجے میں سینکڑوں صحافی اور کارکن بے روزگار ہو گئے تھے۔ آزادی صحافت اور تحفظ روزگار کی تاریخی تحریک میں سب سے بڑا حصہ بھی انہی سرکاری اخبارات کے کارکنوں نے ڈالا، مارشل لاء کے نفاذ کے بعد میں، منہاج برنا گروپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور ایک سپاہی کے طور پر آزادی صحافت کی جنگ کا حصہ بنا۔ انیس سو اسی میں الیکشن لڑ کرجب میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا سیکرٹری منتخب ہوا، بدر الاسلام بٹ صاحب پی یو جے کے صدر الیکٹ ہوئے تھے۔ صحافیوں کے اتحاد کا یہ عالم تھا کہ ہم نے مارشل لاء کی چھتری تلے جمع ہونے والے ’’دوستوں‘‘ کو چیلنج دیا کہ اگروہ واقعی خود کو صحافیوں کے نمائندہ یا لیڈر سمجھتے ہیں لاہور میں کوئی میٹنگ کرکے دکھائیں۔ چیلنج دینے کی وجہ یہ تھی کہ اسی فیصد سے زیادہ صحافی ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے تھے۔ کسی کو اپنی بر طرفی کا خوف تھا نہ بے روزگار ہوجانے کا۔ مارشل لاء کے حمایت یافتہ دھڑے کی تمام تر سرگرمیاں اسلام آباد تک محدود تھیں۔ اگلے سال پی یو جے کا الیکشن ہوا تو میں صدر منتخب ہو گیا۔ ہم نے اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے دن رات کام کیا، یکم مئی کو بشیر بختیار لیبر ہال میں شاندار طریقے سے یوم مزدور کی تقریب منعقد کی جس کی صدارت ہمارے عظیم قائد جناب نثار عثمانی صاحب نے کی۔ اس زمانے میں پی یو جے کے تمام ارکان سے ماہانہ دس روپے چندہ وصول کیا جاتا تھا، یونین کے تمام اخراجات اسی چندے سے پورے ہوتے تھے۔ ٭٭٭٭٭ بینظیر شہید نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ریٹائرڈ جنرل ٹکا خان کو پنجاب کا گورنر نامزد کر دیا۔ میں ان دنوں بھی دوسری بار پی یو جے کا صدر تھا۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے محمد الیاس مغل یونین کے سیکرٹری منتخب ہوئے تھے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت کے لئے قربانیاں دینے والے صحافیوں میں جنرل ٹکا خان کے بارے میں بد گمانیاں پیدا ہونے لگیں۔ صحافی گلہ کر رہے تھے کہ گورنر ہاؤس میں ہونے والی تمام تقاریب میں اب بھی جنرل ضیاء کے گماشتہ صحافیوں کو مدعو اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے جرنلسٹوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو ان کی توہین کے مترادف ہے۔ میں نے سیکرٹری پی یو جے الیاس مغل سے کہا کہ جنرل ٹکا خان سے ملتے ہیں اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب جمہوریت بحال ہو چکی ہے اور صحافت بھی، آپ بھی گورنر ہاؤس کے مہمانوں کی فہرست تبدیل کر لیں۔ اگلے روز ہم دونوں گورنر ہاؤس کے ایک کمرے میں بیٹھے تھے۔ تھوڑے سے انتظار کے بعد جنرل صاحب تشریف لے آئے۔ سلام دعا کے بعد میں نے بڑے ادب کے ساتھ ان کے سامنے مدعا بیان کر دیا۔ میری بات مکمل ہونے تک ٹکا خان ہمہ تن گوش رہے، چند لمحے کچھ سوچا اور پھر گویا ہوئے، ،،،،،، ہاشمی صاحب! آپ کے خیال میں ضیاء الحق بے وقوف آدمی تھا یا آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں؟ جن صحافیوں کے ساتھ جنرل ضیاء نے گیارہ برس کامیابی سے حکومت کی وہ زیادہ اہم ہیں یا آپ کے ساتھی؟ ریٹائرڈ جنرل کے جواب نے ہم پر سکتہ طاری کر دیا، ہم مبہوت ہو کر رہ گئے۔ جمہوری حکومت کے گورنر شاید سچ ہی بول رہے تھے، کیونکہ جو صحافی جنرل ضیاء کے لئے خطرناک تھے وہ واقعی جمہوری حکومت کے درباری بھی نہیں بن سکتے تھے۔ ہم کچھ بولے بغیر ریٹائرڈ جنرل کے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میں اور الیاس اس قابل نہیں رہے تھے کہ ایک دوسرے سے بھی مکالمہ کر سکیں، ہم دونوں نے اپنے ساتھیوں کو گورنر صاحب سے ملاقات کی تفصیلات سے لاعلم رکھا، لیکن بات کہاں چھپتی؟ جمہوری دور کے گورنر نے اس ملاقات کی تفصیلات مارشل لائی صحافیوں کو خود بتادیں اور اس کے بعد آزادی صحافت کے سفر نے ایک نئی کروٹ لی اور اس کروٹ کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔