17 ستمبر 2020ء جمعرات کوبھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیرکے صوبہ لداخ میں چین کی پیش قدمی پریہ کہتے ہوئے اعتراف شکست کیاکہ چین نے لداخ کے 3.800مربع کلومیٹر پرقبضہ جمارکھاہے ۔ ان کا کہنا تھا یہ سچ ہے کہ لداخ میں ہمیں ایک چیلنج کا سامنا ہے۔بھارتی وزیردفاع کی باڈی لنگویج ، لب ولہجہ سے صاف طور پراس امرکی عکاسی ہو رہی تھی کہ وہ چین کے سامنے اعتراف شکست کررہے تھے اوراپنی بے بسی کارونارورہے تھے۔بلاشبہ مودی حکومت چین کے سامنے ناکام ہوچکی ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کاکہناتھاکہ مودی کی سربراہی میں چین کے خلاف سرحد پر اور ملک کے اندر کورونا وائرس کے خلاف دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کریں گے لیکن بھارتی وزیردفاع کے اعتراف شکست نے مودی کومنہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ اس سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندرمودی جھوٹ بولتارہااوربھارتیوں کوفریب ،دھوکہ اوردجل دیتارہا۔ مودی نے ٹی وی پرآکربھارتی قوم کوبے وقوف بناکراسے مخاطب ہوکر کہاتھاکہ ’’نہ کوئی لداخ میں آیاہے اورنہ کسی نے ہماری پوسٹ پرقبضہ کیاہے ۔مودی نے سلسلہ وار پروگرام من کی بات میں کہا تھا کہ لداخ میں جن لوگوں نے انڈیا پر ٹیڑھی نگاہ ڈالی تھی انھیں سخت جواب دیا گیا ہے‘‘۔ بھارتی وزیر دفاع نے بھارتی پارلیمنٹ میں پوری تفصیل بتادی کہ سنہ 1993ء اور سنہ 1996 ء کے معاہدے کے تحت دونوں ممالک چین اوربھارت کم از کم ایل اے سی کے پاس اپنی افواج کی تعداد کم سے کم رکھیں گے اور جب تک سرحدی تنازع کو مکمل طور پر حل نہیں کیا جاتا تب تک ایل اے سی کا سختی سے احترام کیا جائے گا اور کسی بھی صورت میں اس کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ اس کی بنیاد پر سنہ 1990 ء سے سنہ 2003 ء تک دونوں ممالک نے ایل اے سی کے بارے میں مشترکہ تفہیم پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد چین اس اقدام کو مزید آگے بڑھانے پر راضی نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے چین اور بھارت کے درمیان بہت سی جگہوں پر ایل اے سی کے خیال پر مسلسل اوورلیپ رہتا ہے۔بھارتی وزیر دفاع کاکہناتھاکہ اپریل 2020ء سے چین نے لداخ کی ایل اے سی پر فوج اور فوجی ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان کی تعداد میں اضافہ کیا ہے جو واضح طور پر دیکھا گیا ہے اور مئی 2020 ء کے آغاز میں چین نے وادی گلوان میں بھارتی فوجیوں کے معمول کی گشت میں خلل ڈالنا شروع کیا۔ جس سے فیس آف کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ بھارتی وزیردفاع کاکہناتھا کہ ایل اے سی پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے دونوں فریقین کے فوجی کمانڈروں نے 6 جون 2020 ء کو ایک میٹنگ کی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ باہمی کارروائی کی بنیاد پر ڈس انگیجمینٹ ہونا چاہیے۔ دونوں فریقوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا تھاکہ ایل اے سی کو مانا جائے گا اور اس طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی جو صورتحال کو بدل دے۔ گرائونڈ کمانڈر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف معاہدوں اور پروٹوکول کے تحت بات کرتے رہے لیکن چین اپنے وطیرے پرقائم رہااور مئی کے وسط میں چین نے لداخ کے مغربی سیکٹر میں متعدد مقامات پر ایل اے سی میں دراندازی کی کوشش کی ۔بھارت نے سفارتی اور فوجی چینلز کے توسط سے چین کو آگاہ کیا کہ اس طرح کی سرگرمیاں یکطرفہ طور پر جمود کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔لیکن چین نے اس کی طرف کوئی التفات نہ کی۔ بھارتی وزیردفاع کاکہنا تھا کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چین نے 15 جون2020 ء کو گلوان وادی میں پرتشدد حالات پیدا کر دیے۔ ہمارے جوان ہلاک ہوئے مگراس دوران ہمارے بہادر فوجیوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔راج ناتھ سنگھ نے بھارتی پارلیمان سے درخواست کی کہ فوجیوں کی بہادری کی تعریف کی جائے۔ان کاکہناتھاکہ بھارت یہ تسلیم کرتا ہے کہ ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات میں بھی باہمی احترام اور حساسیت ہونی چاہیے۔ چونکہ ہم اس موجودہ صورتحال کا بات چیت سے حل تلاش کرنا چاہتے ہیں اس لیے ہم نے چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی رابطے برقرار رکھے ہیںاور اس بات چیت میں تین اصول ہمارے نقطہ نظر کا تعین کرتے ہیں۔ پہلے دونوں فریقین ایل اے سی کا سختی سے احترام کریں اور ان کی پابندی کریں دوسری بات کسی بھی فریق کو اپنی طرف سے جمود کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور تیسرا دونوں فریق کے درمیان تمام معاہدوں اور افہام و تفہیم پر پوری طرح عمل ہونا چاہیے۔ راج ناتھ سنگھ کاکہناتھاکہ اس کے باوجود چین کی سرگرمیوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کے بیانات اور اقدامات میں فرق ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب بات چیت جاری تھی، چین کی جانب سے 29 اور 30 اگست کی درمیانی رات کو اشتعال انگیز فوجی کارروائی کی گئی تھی۔وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ چین دو طرفہ معاہدوں کو نظرانداز کرتا دکھائی دیتا ہے۔ چین کی جانب سے بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی 1993 ء اور 1996 ء کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ان کاکہناتھاکہ چین نے ابھی بھی ایل اے سی اور اس کے داخلی علاقوں میں بڑی تعداد میں فوج اور گولہ بارود جمع کیا ہے۔ خیال رہے کہ مودی کو دو طرفہ چیلنج درپیش ہے۔ پہلا چیلنج چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانا ہے اور دوسرا چیلنج سیاسی ہے۔ چین کے معاملے پر اپوزیشن مسلسل حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور حکومت سے جواب طلب کر رہی ہے۔مقبوضہ لداخ میں بھارت اپنی گردن کس طرح چھڑاسکے گابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی ٹھوس بیان سامنے نہیں آیا ۔ مودی حکومت کے بیانات میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ بلاشبہ مودی حکومت چین کے سامنے ناکام ہوچکی ہے ۔بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کاکہناتھاکہ مودی کی سربراہی میں چین کے خلاف سرحد پر اور ملک کے اندر کورونا وائرس کے خلاف دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کریں گے لیکن بھارتی وزیردفاع کے اعتراف شکست نے مودی کومنہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔