پشاور(سٹاف رپورٹر)پشاور ہائیکورٹ نے بس ریپڈ ٹرانزٹ سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،فیصلے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف حکومت نے کسی وژن اور منصوبہ بندی کے بغیر منصوبہ شروع کیا۔عدالت نے بی آر ٹی سے متعلق ایف آئی اے کو 45 روز میں انکوائری کرکے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے ، عدالت کے مطابق منصوبے نے 6 ماہ میں مکمل ہونا تھا جبکہ سیاسی اعلانات کے باعث منصوبہ کئی نقائص کا باعث بنا، تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑھی، منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ سٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں، عدالت کے مطابق بی آر ٹی کی فی کلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو زیادہ ہے ، بھاری تنخواہوں پر کنسلٹنٹ رکھے گئے ، مسافروں کا تخمینہ 3 لاکھ 40 ہزار لگایا جو لاہور میں سوار ہونے والے مسافروں سے بھی زیادہ ہے ، پنجاب کی میٹرو بس میں 65 بسیں شامل ہیں، جبکہ پشاور کے لیے 219 بسیں استعمال کی جانی ہیں ، پرویز خٹک، سابق وزیر ٹرانسپورٹ دو سابق ڈی جی پی ڈی اے ، اعظم خان اور کمشنر پشاور کے درمیان کیا تعلق تھا؟ عدالت نے سوالات اٹھائے ہیں کہ ٹھیکہ دار نے سیکرٹری ٹرانسپورٹ، ڈی جی پی ڈی اے اور کمشنر پشاور کو مہنگی گاڑیاں دیں، نامناسب منصوبہ بندی کے باوجود میکڈونلڈز کو 2 کروڑ روپے کیوں جاری کیے گئے ؟ دریں اثناء پشاورہائیکورٹ نے بی آرٹی منصوبے میں معذورافرادکیلئے سہولیات نہ ہونے کیخلاف دائررٹ پٹیشن پر جواب جمع نہ کرانے پر چیف سیکرٹری کی تنخواہ قرق کر دی، جمعرات کے روز کیس کی سماعت جسٹس قیصر رشید اور جسٹس نعیم انور نے کی، اس موقع پر جسٹس قیصر رشیدریمارکس د یئے کہ بی آر ٹی میں عام لوگوں کو کوئی سہولت نہیں دی جارہی تو معذور افراد کو کیا سہولت ملے گی ، عدالت نے حکومت کی طرف سے جواب نہ آنے پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری کی تنخواہ قرق کرنے کے احکامات جاری کردیئے ۔