سی اے اے اور این آر سی کے تعلق سے ہونے والے مباحثوں کو دیکھ اور سن کر بڑی کوفت ہوتی ہے۔ بھکتوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پار لیمنٹ میں منظورہوکر یہ بل قانون بن چکا ہے اسلئے مخالفت ہر گز نہیں کی جانی چاہئے۔ اسے ہو بہو قبول کرلیں یا پھر سپریم کورٹ کے فیصلے یا2024ء میں حکومت کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پْر امن احتجاج عوام کا کوئی دستوری حق نہیں ہے۔ حکومت عوام سے کہہ رہی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔نیز یہ بھی کہ سی اے اے اوراین آر سی کاایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی این پی آر کسی بھی طرح این آر سی کی پیش بندی کررہا ہے۔اس طرح حکومت ایک طرف تو یہ کہہ رہی کہ عوام اس کی بات پر اعتماد اور بھروسہ کریں، لیکن دوسری طرف وہ خود عوام پر کسی قسم کا بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔وہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ عوام کو خود اس بھروسے کا ثبوت فراہم کرناچاہئے۔ یہ انہی کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف حکومت اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے بالکل آزاد سمجھتی ہے۔ اس عدم اعتماد اور ذمہ داری سے پہلو تہی کا سب سے بڑا ثبوت اس کے اپنے بیانات ہیں۔اتر پردیش میں پو لیس ایکشن کے ذریعے اموات سب سے زیادہ ہوئی ہیں لیکن وزیر اعظم اپنے بیانات میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں کرتے۔ وہ صرف پراپرٹی کے مبینہ نقصانات کا ذکر کرتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ لوگ خود سوچیں کہ وہ کیا کررہے ہیں لیکن یہی بات وہ خود اپنے بارے میں سوچنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ جبکہ عوام کا بار بار یہی مطالبہ ہے کہ حکومت ان کی بات سنے۔ وزیر اعظم حقوق سے زیادہ فرائض اور ذمہ داریوں کی بات کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقوق کی ایک حد ہے لیکن فرائض اور ذمہ داریوں کی کوئی حد نہیں ہے۔ فرائض بہت وسیع ہیں۔یہ تو بالکل ایک الٹی بات ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے اور اس کے اثرات کافی دور تک جائیں گے۔کیا حکومت اس طرح اپنی ذمہ داریوں سے دامن جھاڑ سکتی ہے؟ملک بھر میں عوام چیخ و پکار کر رہے ہیں، تلملا رہے ہیں ا ور آواز بلند کررہے ہیں۔ لیکن حکومت ہے کہ کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔وہ یہ سمجھ رہی ہے کہ اگر عوام حکومت سے اختلاف کرتے ہیں تو انہیں اس کیلئے آزمائش سے گزرنا ہی پڑے گا۔ حکومت بیان پر بیان جاری کررہی ہے کہ اس قانون کے بارے میں عوام کے شکوک و شبہات بالکل بے بنیاد ہیں اور ملکی پراپرٹی کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار خود عوام ہی ہیں۔ آج سے چند سال قبل نوٹ بندی کے وقت بھی عوام سے اچھے شہری اور محب وطن ہونے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ متضاد بیانات بھی دیئے گئے تھے۔ 200افراد کی موت کے باوجود عوام نے اسے جھیل لیا۔ یہی بات جی ایس ٹی جیسے پیچیدہ اور پریشان کن قانون کونافذ کرتے وقت بھی کہی گئی تھی۔بالا کوٹ کے بارے میں سوالات اٹھائے جانے پر بھی حب الوطنی کا راگ الاپا گیا تھا۔ ان تمام مواقع پر تو عوام خاموش رہے۔ تمام آزمائشوں سے گزرتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کے نتیجے میں آنے والی معاشی کساد بازاری کو بھی برداشت کر رہے تھے لیکن اب سی اے اے اور این آر سی اورپھر این پی آر ، ان سب نے عوام کے صبر کا پیمانہ صبر لبریز کردیا ہے۔ عوام سے شہریت کیلئے ثبوتوں کا مطالبہ کیا جارہاہے، لیکن حکومت معاشی مندی اور روزگار کی قلت پر نہ تو کوئی اقدام کررہی ہے اور نہ کوئی تسلی بخش جواب دینے کیلئے ہی تیار ہے۔ وہ ایک خلاف دستور قانون بنا کر اسے نافذ کر چکی ہے اور عوام کو اس کے بارے میں صحیح ڈھنگ سے جواب دینے کے بجائے اِدھراْ دھر کی باتیں کر رہی ہے۔ اصل نکتے کو سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے۔فرائض کو حقوق پر ترجیح دینے کی بات تو ایک ایسی حکومت کے دور میں اٹھائی گئی تھی جسے آپ دن رات تمام برائیوں کا ذمہ دارٹھہرارہے ہیں، یعنی ایمرجنسی کے وقت کی لیکن آج آپ خود اس کی پیروی کررہے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے چینلوں پر سی اے اے اور این آر سی کے تعلق سے ہونے والے مباحثوں کو دیکھ اور سن کر بڑی کوفت ہوتی ہے۔ بھکتوں کا کہنا ہے کہ چونکہ پار لیمنٹ میں منظورہوکر یہ بل قانون بن چکا ہے اسلئے مخالفت ہر گز نہیں کی جانی چاہئے۔ اسے ہو بہو قبول کرلیں یا پھر سپریم کورٹ کے فیصلے یا2024ء میںحکومت کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ پْر امن احتجاج عوام کا کوئی دستوری حق نہیں ہے۔ تاریخ حکمرانوں اور اکثریتی حکومتوں کے جبر سے تو بھری پڑی ہے، لیکن اقلیتوں کے جبر اور زبردستی کی مثالوں سے وہ بالکل خالی ہے اسلئے کہ اقلیت کے جبر کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ یہ بالکل ناممکن ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ پارلیمنٹ میں جب کوئی قانون منظور ہوگیا تو اس کی صداقت اور حقانیت پر مہر لگ گئی۔بی جے پی کا یہ کہنا کہ چونکہ اس نے اپنے مینی فیسٹو میں اِس بات کا وعدہ کیا تھا اور 2019ء میں زیادہ اکثریت سے اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے اسلئے اسے یہ قانون پاس کرنا ہی ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حزب اقتدار اپنے تمام وعدوں پر اسی طرح عمل کرتی ہے؟ کیا اس نے ہر باشندے کے اکائونٹ میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرانے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کوئی بھی وعدہ اس بنیا د پر قانونی نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اکثریت کی حکومت نے اسے اپنے مینی فیسٹو میں درج کیا تھا اسلئے وہ اس کی پابند ہے کہ اسے پارلیمنٹ سے منظور کروائے اور اس نے ایسا کر بھی لیا ہے۔ یہ بھی قطعی ضروری نہیں ہے کہ وہ قانون غیر دستوری، خوف زدہ کرنے والا، کچھ طبقات کی حقوق چھیننے والا اورجابرانہ نہ ہو۔ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہت سے ایسے قوانین ہیں جو اگرچہ پارلیمنٹ میں پاس ہوگئے تھے لیکن سپریم کورٹ نے انھیں خلاف دستور یاخلاف قانون قرار دے دیا۔ اگر یہ شیطانی منصوبہ کامیاب ہوگیا تو جمہوری سیاست داغدا ر اور زخموں سے چور چور ہوکر رہ جائے گی بلکہ اس کا جنازہ اٹھ جائے گا۔جن کو شہریت نہیں ملے گی ان کا نہ ملک ہوگا اور نہ گھر۔ وہ اپنے وطن میں بے وطن ہوکر رہ جائیں گے۔ اس طرح مسلمانوں کو شہریت سے خارج کرکے بے وطن کرنے کی گہری سازش رو بہ عمل لائی جارہی ہے۔ اس شیطانی ایجنڈے کو ہرگز نافذ نہیں ہونا چاہئے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے۔ کیا حکومت اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہے؟(روزنامہ انقلاب بھارت )