ہر روز ایک سے ایک دلفگار خبر سن کر ہم بڑے ’’سنگ دل‘‘ ہو گئے ہیں بلکہ ہماری رگ اشکبار پتھر کی ہو چکی ہے۔ تاہم بعض اوقات کوئی دل کو چھید دینے والی خبر نظر سے گزرتی ہے تو سنگ بستہ رگ اشکبار سے بھی لہو رنگ آنسو بہنے لگتے ہیں۔ دو تین روز پہلے ایسی ہی ایک خبر پڑھنے کو ملی جس کے مطابق چارسدہ کی بوڑھی ماں نے پریس کانفرنس میں فریاد کی کہ میرے مرحوم نے 5کنال اراضی میرے نام لکھی تھی۔ میرے اکلوتے بیٹے نے میری مرضی سے وہ فروخت کی جس سے 16کنال اراضی خریدی اسی پر ہم نے گھر تعمیر کیا اور اسی میں رہائش اختیار کی۔ ایک روز اچانک بیٹے نے میری اطلاع کے بغیر وہ زمین اور گھر دونوں فروخت کر دیے اور ساری رقم وصول کر کے بیٹا اسلام آباد چلا گیا۔جہاں وہ پولیس افیسر ہے اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر اور یہاں اس نے مجھے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ محافظ قانون بیٹے نے دھوکہ دی سے شناختی کارڈ بنوانے کے بہانے ماں کے انگوٹھے لگوائے اور زمین فروخت کر دی۔ ماں نے بتایا کہ ہم نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بڑی محنت اور شفقت سے پڑھایا تھا۔ مگر اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا۔ چارسدہ کی ماں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ مجھے میرا بیٹا نہیں چاہیے۔ میں اس کے لئے مر چکی ہوں مگر مجھے میرا حق چاہیے اور بلا تاخیر چاہیے۔ آنسو بہاتی ماں نے شدت غم اور بے پناہ غصے میں بھی ناخلف بیٹے کو بددعا نہیں دی۔ شاعر نے شاید اسی موقع کے لئے کہا تھا۔ ؎ اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تورو دیتی ہے کچھ مدت پہلے تک میں یہ سمجھتا تھا کہ ایسے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے ہوں گے۔ مگر اپنے رہائشی علاقے بحریہ ٹائون لاہور کے اولڈ ہوم جا کر مجھے معلوم ہوا کہ اب یہ کہانی خاص نہیں عام ہو گئی ہے۔ وہاں بوڑھے خواتین و حضرات بحریہ ٹائون والوں کو دعائیں دیتے سنائی دیتے ہیں انہوں نے بتایا کہ اپنوں نے ہمیں ٹھکرایا اور بیگانوں نے ہمیں گلے لگایا، بلکہ اب یہ بیگانے ہی ہمارے اپنے ہیں۔ ایک طرف چارسدہ کے اکلوتے بیٹے پولیس افیسر کی بے مروتی اوردھوکہ دہی کی دل خراش کہانی ہے اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر ہی ایک پولیس مین نے ماں باپ کی شان میں بڑے ہی دلگداز انداز میں ۔پنجابی نظم گائی ہے جسے ہزاروں لوگ سن چکے ہیں اگر آپ نے نہیں سنی تو ضرور سنیے آپ کے لئے آنسو ضبط کرنا مشکل ہو گا۔ پولیس مین کہتا ہے ماں ! جنہے ماں نوں روایا دل پیو دا دکھایا جنہے دوہاں نو ںستایا انہے عرش ہلایا بات اولڈ ہومز کی ہو رہی تھی اس بارے میں جوں جوں میری معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے توں توں میری حیرانی اور پریشانی بڑھ رہی ہے کہ ہمارے معاشرے کی اقدار کتنی بدل گئی ہیں۔ کبھی ہم یورپ و امریکہ پر اولڈ ایج ہومز کے حوالے سے طنزو طعنے کے تیر برسایا کرتے تھے اب خود برسوں سے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ جہاں تک ماں کی ہستی کا تعلق ہے اسے ہر مذہب میں نہایت بلند و بالا مقام حاصل ہے ۔تاہم اسلام میں نہایت وضاحت و صراحت کے ساتھ والدین بالخصوص ماں کے ادب و احترام کی بے حد تلقین کی گئی ہے۔ قرآن وحدیث میں ماں کی شان اورمقام کو واضح کیا گیا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب ماں کو محبوب ترین ہستی قرار دیا جاتا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ کے عنوان سے ایک لازوال اور بے مثال نظم کہی ہے جس میں شاعر اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتا ہے‘ وہی جذبات جو ہر بیٹے کے دل میں اپنی ماں کے لئے ہوتے ہیں :علامہ فرماتے ہیں۔ علم کی سنجیدہ گفتاری بڑھاپے کا شعور دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم کس کو اب ہو گا وطن میں آہ میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار یہ خیال درست نہیں کہ مغرب میں ماں سے اظہار محبت نہیںکیا جاتا۔ آج بھی سالانہ سینکڑوں نظمیں ماں کی محبت اور شان میں کہی جاتی ہیں۔ کالم اورمضامین لکھے جاتے ہیں اور جہاں تک مغرب میں اولڈ ہومز کا تعلق ہے وہ مکافات عمل ہے جبکہ ہمارے ہاں اولڈ ہومز کا نمودار ہونا یہاں کے بعض نوجوانوں کی حد سے بڑھی ہوئی خود مختاری کی ہوس ہے۔ مغرب میں مدرز ڈے۔ دراصل اس محرومی و تشنگی کا اظہار ہے جو مرد و خواتین محسوس کرتے ہیں۔2018ء میں شائع ہونے والی لینورا میک ہورٹر کی ماں کے بارے میں خوبصورت نظم دیکھئے جس کا عنوان ہے ’’ماں کی روحانی شان‘‘ The hand that rocks the cradel also makes the house a home it is prayers of the mother that keeps the family strong یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ ہماری سوسائٹی میں ہماری اسلامی و مشرقی اقدار دم توڑ رہی ہیں۔ جہاں تک سعادت مند اور خدمت گزار بیٹوں کا تعلق ہے ان کی بھی کوئی کمی نہیں۔ میرے ایک دوست لاہور کی ایک اچھی بستی میں آٹھ دس مرلے کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ بیرون ملک مقیم ان کے بیٹے نے شہر کی انتہائی پوش سوسائٹی میں بڑا مکان بنایا اور والدین سے اس میں منتقل ہونے کی درخواست کی میرے دوست اپنا گھر چھوڑ کے آنے پر آمادہ نہ تھے بیٹے نے منت سماجت سے اپنی والدہ سے اپنی بات منوائی اور اس طرح میرے دوست اس بڑے گھرمیں آباد ہو گئے اگر سعادت مند بیٹا اپنے نئے مکان کو کرائے پر اٹھاتا تو اسے کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ روپے ماہانہ کرایہ وہاں ہوتا۔ میرے یہ دوست گرمیوں میں کئی ماہ اپنے بیٹوں کے پاس ان کے اصرار پر بیرون ملک گزارتے اور سردیوں میں پاکستان لوٹ آتے ہیں۔ اس طرح کی سعادت مندی کی ایک نہیں لاکھوں مثالیں موجود ہیں۔ تاہم جب چارسدہ جیسی بے اعتنائی اور بے مروتی اور دھوکہ دہی کی کوئی داستان سامنے آتی ہے تو دل کانپ اٹھتا ہے لوگ اس واقعے کو قرب قیامت کی نشانی قرار دے رہے ہیں۔ میرے لڑکپن میں ہماری اماں ایک کہانی سنایا کرتی تھیں کہ ایک نوجوان کی محبوبہ نے کہا کہ میں اس وقت تک تم سے شادی نہیں کروں گی جب تک تم اپنی ماں کا سرکاٹ کر نہیں لے آئو گے۔ نوجوان دوڑتا ہوا گھر گیا اور محو خواب ماں کا سر تن سے جدا کر کے تھیلے میں لے کر دوڑتا ہوا محبوبہ کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں نوجوان کو ٹھوکر لگی اور وہ گر پڑا تو ماں کے کٹے ہوئے سر سے آواز آئی۔ بیٹا چوٹ تو نہیں لگی سنگدل بیٹے نے سنی ان سنی کر دی مگر جب وہ اس عورت کے پاس پہنچا اور اس کے سامنے سر پیش کیا تو اس نے کہا جو شخص اپنی محبوب ترین ہستی کا سر کاٹ سکتا ہے اس سے بڑھ کر سنگدل کون ہو گا۔ میری نظروں سے دور ہو جائو میں ایسے سنگدل سے شادی نہیں کروں گی۔