ہمیں اپنے ملک کی جمہوریت اچھی لگتی ہے کیوں کہ اس میں الیکشن ہوتا ہے اور الیکشن میں اس کے سوا کوئی برائی نہیں کہ امیدواروں کو اپنے اثاثے بتانے پڑتے ہیں۔ اثاثے چھپ کر چپکے چپکے بنائے جاتے ہیں۔ دنیا کو بتانے اور دکھانے کے لیے نہیں بنائے جاتے چونکہ اثاثے ظاہر کرنا مجبوری ہے اور الیکشن لڑنا بھی ضروری ہے۔ سیاست دان الیکشن نہ لڑیں تو اثاثوں میں اضافہ کیسے ہو۔ اس لیے اپنے اثاثوں کی تفصیل بتاتے ہوئے سیاست دان انکسار و عاجزی کا پیکر بن جاتے ہیں۔ اربوں کی جائیداد کو کروڑ دو کروڑ کا بتاتے ہیں، رشوت میں یا دھونس دھاندلی سے ہتھیائی ہوئی زمینوں اور پلاٹوں کو وراثتی ٹھہراتے ہیں۔ اپنی کمائی کو بیوی کی ملکیت ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ بنگلے کچھ کاروبار بچوں کے حصے میں ڈال دیتے ہیں۔ الیکشن کمشن میں بھی درویش صفت اہل کار ہیں جو اثاثوں کی مالیت پر چوں چرا نہیں کرتے۔ جیسا بتایا جاتا ہے اسے چپ چاپ قبول کر لیتے ہیں۔ ووٹر بے چارے اپنے سیاست دانوں کے اثاثوں کی تفصیل پڑھ کر میڈیا کو صلواتیں سناتے ہیں۔ جنہوں نے ایسے مہا پرس ‘ نیک اور سادھو صفت سیاست دانوں کی خواہ مخواہ کردار کشی کی۔ البتہ کچھ باخبر اور سمجھ دار ووٹرز اثاثوں کی تفصیل پر مسکراتے بھی ہیں اور کار و کوٹھی کی مالیت پر یہ پیش کش بھی کر ڈالتے ہیں کہ اگر مالیت اتنی ہی ہے تو ہم اسے دوگنی بلکہ چوگنی قیمت پر خریدنے کو تیار ہیں۔ اثاثوں کی مالیت بتانے کا مقصد ’’برائے فروخت‘‘ کا اشتہار دینا تو ہوتا نہیں ہے، ورنہ آصف زرداری تیس لاکھ کی قیمت کے بلاول ہائوس کو پچاس لاکھ میں سراج الحق امیر جماعت اسلامی کے ہاتھوں بیچ نہ دیتے۔ اخبارات میں سیاست دانوں کے اثاثوں کی تفصیلات چھپنی شروع ہوئیں تو انہیں پڑھ کر ہمارے اخبار نویس دوست مرزا بے کل عظیم آبادی اخبار لہراتے ہوئے آئے اور کہنے لگے بھائی صاحب ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح سیاست دانوں کے اثاثے چھپ رہے ہیں، ہم صحافیوں کے اثاثوں کی بھی تفصیل چھپنی چاہئیں کہ کوچہ صحافت میں دخل اندازی سے پہلے کیا کچھ ان کے پاس تھا اور اب کتنا کچھ اندوختہ ہے۔ ہم نے کہا مرزا! خدا کا خوف کرو سیاست دان تو الیکشن لڑتے ہیں ہم صحافیوں کو کون سا وزیر سفیر بننا ہے کہ اثاثے بتانے کے پل صراط سے گزریں۔ مرزا کہنے لگے اگر سیاست دانوں کا دامن بے داغ ہونا ضروری ہے تو صحافیوں کالم نگاروں اور اینکروں کے لیے ایمان داری بھی ضروری ہے کیونکہ انہیں سیاست دانوں اور سرکار دربار کا قرب اور صحبت خراب کر دیتے ہیں۔ ہم نے لاجواب ہو کر کہا اچھا تو پھر سب سے پہلے تم اپنے اثاثے بتائو۔ کیونکہ شروعات تم ہی سے ہوں۔ مرزا بولے شوق سے ابھی ہم اپنے اثاثے بتائے دیتے ہیں۔ مرزا نے اپنے اثاثوں اور ان کی مالیت کی جو تفصیل بتائی ذیل میں اسی وضاحت کے ساتھ درج کیے دیتے ہیں کہ ہم نے خون فساد خلق سے ان کا اصلی نام اسی طرح چھپایا ہے جیسے سابق وزیر اعظم نے اپنی جائیداد چھپا رکھی ہے۔ مرزا نے بتایا:ہم خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلفیہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہر دلعزیز لیڈر عمران خان کی طرح ہماری بھکر‘ شیخو پورہ ‘ موضع رینگیاں‘ میاں چنوں وغیرہ میں کوئی زرعی زمین نہیں ہے۔ خان صاحب کو تو یہ زمینیں وراثت میں ملی تھیں۔ ہمارے ابا مرے تو ہمارے لیے کچھ نہ چھوڑا۔ اسی وجہ سے ہم بھائی بہنوں میں پیار محبت کا رشتہ رہا اور الحمد للہ جائیدادوں کا کوئی جھگڑا نہیں اٹھا ابا مرحوم سمجھدار تھے، جائیدادوں کے ضرر کو جانتے تھے ہم بھی اپنے ابا کے نقش قدم پر ہیں ایک پلاٹ 240گز کا ہمارے پاس ہے لیکن یہ نہ بھی ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا اس لیے کہ پلاٹ ایسے ویرانے میں ہے کہ جہاں شرفا تو کیا جرائم پیشہ افراد بھی جانا پسند نہیں کرتے۔ ہماری املاک میں قابل ذکر تو بیوی بچے ہیں۔ ان کے علاوہ جو غیر ضروری اشیاء ہیں۔ ان میں ایک عدد کار ہے جو دیکھنے میں محکمہ آثار قدیمہ کی دریافت معلوم ہوتی ہے اس کار کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس میں بریک کو چھوڑ کر باقی سب چیزیں مثلاً کلچ ‘ گیئر ‘پہیے وغیرہ ٹھیک ٹھاک طریقے سے کام کرتے ہیں۔ کار کی وجہ سے ہمارے پڑوسیوں سے مراسم نہایت خوشگوار ہیں کیونکہ یہ صبح کو ان ہی کی مدد سے اسٹارٹ ہوتی ہے۔ چنانچہ ان سے تعلقات کو پرامن اور خوشگوار رکھنا ہماری ہی ذمہ داری بنتی ہے۔ کاررواں ‘ اور سبک رفتار ہے جب تک دیوار سامنے نہ آ جائے رکنے کا نام نہیں لیتی اس کے دروازے کھولنے کے لیے ہینڈل استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ہینڈل اس کے غائب ہیں۔ کھڑکیوں کے شیشے چڑھتے اترتے وقت چیختے ہیں۔ کار چوروں کے مذموم ارادے سے باخبر کرنے کے لیے یہ شیشے الارم کا کام دیتے ہیں اس لیے ہم نے اب تک اس میں الارم نہیں لگوایا۔ کار کے چاروں ٹائر گنجے ہو چکے ہیں ہماری طرح‘ اس لیے ہمیں پروا نہیں یہ گھومتے ہیں ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ نشستوں کے گدے گل چکے ہیں۔ دوستوں اور رشتہ داروں نے لفٹ لینا اسی وجہ سے چھوڑ دیا ہے جو ایک بار بیٹھا دوبارہ بیٹھنے کی اسے ہوس نہیں۔ کار کی چابی گم ہو جائے تو کوئی پریشانی نہیں ہوتی کیونکہ ہر چابی سے اس کا دروازہ کھل جاتا ہے اور یہ بلا تردد اسٹارٹ ہو جاتی ہے۔ کار چوروں سے بھی الحمد للہ محفوظ رہی ہے آج تک کسی کار چور کو اس کی طرف رغبت ہی نہیں ہوئی۔ بلا شبہ یہ کار کی صورت و سیرت ہی کا کمال ہے۔ کار کی بابت اس تفصیل کی چنداں حاجت نہ تھی لیکن تقاضائے محبت و عادت نے مجبور کیا کہ کار کی ملکیت کے ضمن سے حامل ہذا کی عزت سے دوسروں کو بھی لطف اندوز کیا جائے۔ ہماری ملکیت میں جو دیگر اشیاء ہیں ان میں ایک ٹیلی ویژن سیٹ ہے جس پر کسی زمانے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے پروگرام صاف دکھائی دیتے تھے اب اپنی گوناگوں مصروفیتوں کی وجہ سے معلوم نہیں کون کون سے چینل آتے ہیں۔ ایک ریفریجریٹر بھی اللہ نے دے رکھا ہے جس سے نکلا پانی کلیجے کی ٹھنڈک سے ٹھنڈا ہوتا ہے ایک اوون سکینڈ ہینڈ زوجہ محترمہ سے باعث فساد ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی تکنیکی نقص سے جلنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ غریب خانے میں کوئی چیز ایسی نہیں کہ جو قابل ذکر یا قابل فکر ہو۔علاوہ اس اس بندہ ناچیز کی ذات کے جن اشیاء کا تذکرہ ہوا یہ مدتوں سے ہمارے پاس ہیں ان میں ہماری مالی حالت کے پیش نظر اضافے کا کوئی امکان نہیں تاہم کوئی اضافہ کرنا چاہے تو ہمیں عنداللہ ماجور یعنی کفران نعمت کا مرتکب نہ پائے گا۔ مرزا بے کل عظیم آباد کے اثاثوں کی اس غمناک تفصیل سے قارئین نے قیاس کر لیا ہو گا کہ ہماری صحافت میں بھی ایسے اہل قلم پائے جاتے ہیں جو ایمانداری اور مال و متاع سے بے نیازی کے ساتھ ایسی ظریفانہ طبیعت رکھتے ہیں کہ اپنی عسرت کے بیان میں خطوط غالب والے مرزا کی یاد تازہ کر دیں۔ زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ کل تک جو چیز عیاشی کہلاتی تھی آج ضرورت بن گئی ہے جب فاصلے تھوڑے اور شہر چھوٹے تھے کار رکھنا عیاشی تھی۔ آج فاصلوں کی طوالت پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی سے یہی کار مجبوری بن گئی ہے جب تک مالک مکان شریف اور بھلے مانس ہوتے تھے کرائے کے مکان میں رہنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا اب ہر سال کرایوں میں پندرہ فیصد اضافہ اور مکان خالی کرنے کے نوٹس کا اندیشہ اپنا مکان بنوانے یا خریدنے کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اثاثے بنانے میں جائز و ناجائز ‘ حرام و حلال قانونی و غیر قانونی کی بحث اب بھی اٹھائی جاتی ہے لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ ہم ایک ایسی صدی میں سانس لے رہے ہیں جب مال و متاع اور جائیداد و اثاثوں ہی سے ہر ضرورت پوری کی جا سکتی ہے اور ہر بلا و مصیبت کو ٹالا جا سکتا ہے یہ سننے میں تو اچھا لگتا ہے کہ دولت سے تم ایک آرام دہ بستر تو خرید سکتے ہو۔ میٹھی نیند نہیں خرید سکتے لیکن کیا یہ بھی سچ نہیں کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے اور وہ بھی تھک کر سو رہتے ہیں جنہیں بستر تو کیا چھت بھی میسر نہیں ہوتی!