غالباً وزیراعظم عمران خان کو یہ احساس ہے کہ زمینی صورتحال اور حقائق ابھی اتنے حوصلہ افزا نہیں ہیں اور بندہ مزدور کے اوقات تلخ سے تلخ ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی بنا پر وہ تواتر سے ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں جن کا بنیادی مقصد عوام کے حوصلے بلند کرنا ہوتا ہے لیکن اسلام آباد،کراچی اور لاہور کے فائیوسٹار ایوانوں میں بیوروکریٹس،ایلیٹ اور بزنس مینوں کے درمیان ایسی باتیں کرنا آسان ہے جو حقیقت حال سے لگا نہ کھاتی ہوں۔ان کا تازہ ارشاد ہے کہ رواں سال خوشحالی کا سال ہو گا،عوام کو نوکریاں ملیں گی اور شرح نمو بڑھ جائے گی۔انہوں نے اپنی حالیہ تقریر میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ماضی کی حکومتوں نے نچلے طبقے کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ نہیں کیا لیکن ان کی حکومت کم آمدنی والوں،دیہات میں رہنے والوں کیلئے ایسا سازگار ماحول فراہم کرے گی جہاں غریب طبقہ بھی ترقی کے دھارے میں شامل ہو سکے گا۔ کمزور طبقے کی دیکھ بھال اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یقینا بطور وزیراعظم انہیں یہی کہنا چاہئے لیکن اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ انہیں حکومت سنبھالے ڈیڑھ برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے،اس دوران عملی طور پر غریبوں کیلئے کیا کیا گیا ہے۔تازہ مثال تیل کی قیمت بین الاقوامی سطح پر تیس فیصد گرنے کے بعد بھی حکومت نے ریلیف عوام کو منتقل نہیں کیا اور محض پانچ روپے فی لٹر کی کمی پر اکتفا کیا۔ اصولی طور پر یہ کمی پندرہ روپے فی لٹر کے لگ بھگ ہونی چاہئے تھی لیکن حکومت نے پٹرول پر ٹیکس میں ہو شربا اضافہ کر دیا ہے۔گویا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔عوام سے کریڈٹ لیا جائے کہ ہم نے پانچ روپے فی لٹر قیمت کم کی لیکن ساتھ ہی ساتھ پٹرول پر ٹیکسوں میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے مطابق آئی ایم ایف کے ٹارگٹ پورے کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ خان صاحب تو یہ بھی چاہتے تھے کہ پورا ریلیف عوام کو منتقل کیا جائے لیکن ان کے مشیر خزانہ نے انہیں ویٹو کرتے ہوئے یہی راستہ دکھایا۔واضح رہے خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو وہ تیل کی قیمت میں کمی کے فائدے کو عوام تک نہ پہنچانے کو ایک غیر اخلاقی حرکت قرار دیتے تھے۔اسی بنا پر برسراقتدار آنے کے بعد جب تحریک انصاف کی حکومت ایک منی بجٹ لائی تو اس نے سابق حکومت کے بنائے ہوئے بجٹ میں تیل کی قیمت کے ساتھ ٹیکس کے میکنزم کو ترک کر دیا تھا لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ بوجوہ اب وہ خود پرانے میکنزم کو بحال کرنے پر مجبور ہیں۔اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے طے شدہ ریونیو ٹارگٹ پورے کرنے میں ناکام رہی ہے اور اسے5500 ارب روپے کے ٹیکس اہداف میں تقریباً 2200 ارب کم کرانے پڑے لیکن اب یہ ہدف بھی پورا نہیں ہو رہا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ یہ ٹارگٹ نان ریونیو ذرائع سے پورا کیا جائے گا۔دوسرے لفظوں میں نج کاری اور دیگر ذرائع سے آئی ایم ایف کا گھر پورا کیا جائے گا۔ریونیو کا اتنا بڑا ہدف پورا کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے کیونکر معاہدہ کیا گیا ایسے حالات میں جب ملک میں مینوفیکچرنگ حتیٰ کہ زراعت اورانویسٹمنٹ سمیت قریباً ہر شعبے میں کساد بازاری کا سامنا ہے۔درآمدات کی کمی کو حکومت اپنے طرہ امتیاز کے طور پر پیش کرتی ہے لیکن درآمدات میں ریکارڈ کمی کے ساتھ ساتھ روپے کی قیمت گرنے کے باوجود ٹیکس میں کمی واقع ہوئی ہے۔ملک میں آنے والی ’ہاٹ منی ‘کو بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں قریباً تین ارب ڈالر اس مد میں آ چکے ہیں لیکن ماہرین اقتصادیات اسے سرمایہ کاری سے تعبیر نہیں کرتے۔ ان کے مطابق چونکہ پاکستان میں 13.25 فیصد شرح سود جو بہت زیادہ ہے اور مغرب کے اندر ایک دو فیصد ہوتی ہے لہٰذا جلد اور بھاری منافع حاصل کرنے کے خواہش مند سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستانی بانڈز میں پارک کر دیتے ہیں۔یقینا ٹی بلز کی شکل میں یہ سرمایہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے لیکن اس سے ملک میں صنعت کاری نہیں ہوتی اور جیسے ہی اس بات کا خدشہ ہوتا ہے شرح سود میں کمی متوقع ہے یہ فنڈز جتنی تیزی سے آتے ہیں اتنی تیزی سے نکال بھی لئے جاتے ہیں۔مہنگائی کی شرح دو فیصد کم ہو کر 14 سے12 فیصد ہوئی ہے ، خدشہ ہے کہ شرح سود کم ہوتے ہی یہ فنڈز واپسی کا رخ کر لیں گے۔ دوسری طرف ایف بی آر کا اپنا حال پتلا ہے۔شبر زیدی شدید دباؤ اور مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی طرف سے سرزنش کے بعد نروس بریک ڈاؤن کا شکار ہو کر گھر چلے گئے ہیں۔شبر زیدی کو چیئرمین ایف بی آر لگانے کا فیصلہ ہی غلط تھا،انہیں مشیر برائے ریونیو ہونا چاہئے تھا اور ایف بی آر کا چیئرمین اسی محکمے سے کسی اہل شخص کو لگانا چاہئے تھا۔شبر زیدی کے جانے کے بعد ہارون اختر خان جو میاں نوازشریف کے دور میں مشیر ریونیو مقرر ہوئے تھے میدان میں کود پڑے ہیں۔ان کے بھائی ہمایوں اختر جو پہلے ہی اپنی روایات کے عین مطابق مسلم لیگ ن کو خیرباد کہہ کر خان صاحب کے حلقہ بگوش ہو چکے ہیںاور ان کے ترجمانوں میں شامل ہیں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ ہارون اختر ہی ان کے مسائل کا حل ہیں۔ہارون اختر جو واقعی انتہائی زیرک اور اکاؤنٹینسی کے ماہر ہیں،انہوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے اس شعبے میں اچھا کام کیا تھا،انہوں نے خان صاحب کو یہی مشورہ دیا کہ وہ ریونیو کیلئے مشیر مقرر کریں اور اس حوالے سے اپنی خدمات بھی پیش کر دیں۔غالباً مشیر خزانہ حفیظ شیخ ہارون اختر کی تقرری کے مخالف ہیں کیونکہ ریونیو کا قلمدان ان کے پاس ہے۔ان کی رائے میں وہ ایف بی آر کی سربراہی ضرور کریں لیکن مشیر کے طور پر نہیں۔واضح رہے اس سے پہلے حماد اظہر کو ریونیو کا وزیرمقرر کیا گیا تھا لیکن حفیظ شیخ کے اعتراض پر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہی ان سے عہدہ واپس لے لیا گیا تھا۔ایف بی آر کے نئے ڈھانچے کے بارے میں تذبذب کی بنا پر اکانومی کے حوالے سے کلیدی محکمہ نفسا نفسی کا شکار ہے۔ایف بی آر کی موجودہ چیئرپرسن نوشین جاوید کی حیثیت عارضی ہے۔ظاہر ہے کہ اس ماحول میں کیا کام ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ہارون اختر پہلے منصب کے مقابلے میں کمتر عہدے ایف بی آر کے چیئرمین کیوں بنیں گے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ پٹرول کی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ ہو یا ایف بی آر میں تقرریوں کا معاملہ خان صاحب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مجبور ہیں جسے وہ دن رات کوستے رہتے ہیں۔سٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقرنے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے اچھی خبر سنائی ہے کہ مہنگائی عارضی ہے جو روپے کی قدر میں کمی اور روزمرہ کی اشیا کی ترسیل میں کمی کی بنا پر ہوئی تھی۔خدا کرے ایسا ہی ہو کہ مہنگائی کا جن واپس بوتل میں چلا جائے اور اقتصادیات کا پہیہ بھی چل پڑے لیکن کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاؤ سے حالات دگرگوں بھی ہو سکتے ہیں۔