دوستوں کے ساتھ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے تو اکثرجذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور اچھی خاصی معقول گفتگو تو تڑاک تک پہنچ جاتی ہے۔ مسئلہ کسی کا ذاتی نہیں ہوتالیکن ہمارے ہاں مختلف ایشوز کے حوالے سے اتنا کنفیوژن ہے کہ سنی سنائی باتوں پر دلائل کی بنیاد جب رکھی جاتی ہے تو اسکا نتیجہ اختلاف رائے کی بجائے ذاتی رنجش کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ ہمارے معاشرے کی تقسیم در تقسیم ہے جو ذات برادری، فرقے، علاقے، زبان اور سیاسی ہمدردیوں کی بنیاد پر ہو چکی ہے۔ کسی بھی بات یا حقیقت کو اسکی اصلی حالت میں تسلیم کرناہمارا قومی مزاج نہیں رہا۔ آپ سڑک پر کسی کو قانون کی خلاف ورزی پر انتہائی شائستگی سے بتا کر دیکھ لیجئے اسکے جواب میں دو تین قسم کے جملے آپ کو سننے میں ملیں گے ، جو کسی بھی قسم کی سنجیدہ چپقلش پر منتج ہو سکتے ہیں اگر آپ بھی اتنے ہی جذباتی ہیں جتنا آپ کا مخاطب۔ جو جملے مجھے سننے کو ایسی صورتحال میں ملے انمیں سب سے مشہور ، ’’ سڑک تمہارے باپ کی ہے‘‘ یا ذرا مہذب جواب یہ ہوتا ہے، ’’ آپ نے سڑک مول لی ہوئی ہے‘‘۔ خالصتاً لاہوری جواب کچھ اس طرح ہوتا ہے، ’’ جا ماما اپنا کم کر‘‘ (جائو ماموں ، اپنا کام کرو)۔ گویا بغیر جان پہچان کے رشتہ داری مخاطب سے نکل آتی ہے۔ سیاسی معاملات میں جو بات بار بار دیکھنے میں آ رہی ہے وہ بیانئے کو پر زور بنانے کے لئے حقائق کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ سوشل میڈیا اور دوسرے ابلاغ کے ذرائع پر برتری اور بیانئے کی فتح کے لئے اصل بات نہ بتانا ہی اہم سمجھا جاتا ہے، گویا کنفیوژن ہی اصل زر ہے جو بیانئے کو بیچنے میںمدد گار رہتا ہے۔ بیانئے سے متاثر ہونے والوں کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ وہ اس بات کو بار بار سننا چاہتے ہیں جس پر وہ یقین کرنا چاہتے ہیں۔ لوگ اس بات کو سننا بھی نہیں چاہتے جو انکی پہلے سے موجود سوچ کی نفی کرتی ہو۔ اس لئے یہ بیانئے کا کھیل کھل کر کھیلا جا رہا ہے۔ اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ کنفیوژن سے باہر نکلنے کا طریقہ آسان نہیں ہے کیونکہ اسکے لئے کچھ وقت تک تمام موجود بیانیوں سے اعلان لا تعلقی کر کے انکاحقائق کی بنیاد پر تجزیہ کیا جائے۔بیانات کی بجائے بہت سے ایشوز پر میسر تاریخی حقائق کو پڑھا اور پرکھا جائے۔ یہ مشکل کام ہے لیکن زندگی میں سکون اور صحیح ادراک کے لئے بہت ضروری ہے۔ کھلاڑی ،جیالے ، متوالے اور دل والے اس نسخے کو استعمال کرنے سے گریز کرینگے جسکا نتیجہ روز روز کی تکرار بلکہ کھچ کھچ کی صورت برقرار رہے گا۔ میڈیا کے تمام ذارئع پر سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر بحث ہوتی ہے وہاں پر محدود وقت میں کسی بھی مسئلے پر سیر حاصل بات نہیں ہو پاتی۔ پھر ہر فورم کے پالیسی ایشوز ہیں وہ کس طرح کی عینک لگا کر اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیں۔مسائل کو سمجھنے کے لئے با علم بحث کی بجائے اگر مزید کنفیوژن پید اہو رہا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ یہ فورم عوام کو با خبر رکھنے اور انکی مسائل کے حوالے سے تربیت میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہم بھی جب بحث کرتے تو انہی لوگوں کا حوالہ اکثر و بیشتر دیتے ہیں جو لوگ ان فورم پر موئثر آواز رکھتے ہیں، آپ کو بحث کے دوران اس قسم کے جملے اکثر سننے کو ملیں گے ، ’’ میں نے اپنے کانوں سے فلاں صاحب کوسنا ہے یا انکا لکھا ہوا پڑھا ہے‘‘، یہ حوالہ دینے والے صاحب اتنے پر یقین ہوتے ہیں کہ جن صاحب کا وہ حوالہ دے رہے ہوتے ہیں انکے لکھے یا بولے کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے اصحاب کے کہے یا لکھے کو اپنے دلائل میں زیادہ پر زور انداز میں حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو پہلے کسی کی حمایت میں بولا یا لکھا کرتے تھے، اب اپنے خیالات بدل چکے ہیں اور اپنے معروف کے لئے منکر نکیر بن گئے ہیں۔جو اپنے کہے کوخود ہی رد کرنے کے دلائل دینے کی دسترس رکھتا ہو ایسے لوگوں کی باتوں کو دلیل کے طور پرپیش کرنا زیادہ خطرناک ہے۔ ایک اہم مسئلہ سیاسی منظر نامے پر درپیش ہے ۔کسی ایک ایشو پر ایک جعلی قسم کا بیانیہ انتہائی پر زور انداز میں تشکیل دیا جاتا ہے اور اسکی بھرپور تشہیر کی جاتی ہے۔ جب اس بیانئے کو حقائق کا سامنا ہوتا ہو تو یہ پٹ جاتا ہے جسکے بعد حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے حقائق کو جھٹلانے کا ایک اور سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دو روز قبل رانا ثناء اللہ کی ضمانت ہوئی ہے۔ اسکو اس انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ گویا وہ تمام الزامات سے بری ہو چکے ہیں۔ایک دن انکا مقدمہ عدالت میں ٹرائیل کے لئے آ نا ہے جس میں شہادتوں کی بنیاد پر انکے خلاف بھی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے والے بیا نئے کا کیا ہو گا جس میں ضمانت کو بنیاد بنا کر متعلقہ وزیر کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔پہلے خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں پھر اس پر یقین کر کے حقیقت کو جھٹلانے کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔ نئے پاکستان کا بیانیہ ہو، بھلے ووٹ کو عزت دو کی بات ہو۔دونوں بیانیوں کو جب حقیقت کا جھٹکا لگا ہے تو دونوں کی ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی ہے۔ این آر او نہ دینے کا بیانیہ ہو یا این آر او نہ لینے کا بیانیہ ہو۔ حقیقت سے ٹکرا کر دونوں پاش پاش ہو چکے ہیں۔ اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ملک سے چلے جانے والوں اور بھیجنے والوں نے سیاسی میدان میں گرد اڑا کر چہرہ چھپانے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ جب مریم نواز اور آصف زرداری بھی چلے جائیں گے تو این آر او والے سیاسی بیانئے کو بھلائے ہی بنے گی۔ یہ سارا عمل اس وقت بہت خطرناک ہو جاتا ہے جب ملک کے اہم اداروں ، عدلیہ،مقننہ اور فوج کے کسی عمل کی وجہ کوئی بیانیہ سیاسی میدان میں تشکیل دیا جاتا ہے جس کی بنیادحقیقت پر نہیں ہوتی۔ ٭٭٭٭٭٭