نوشہرہ میں شجرکاری منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی اور فوڈ سکیورٹی کا معاملہ اطمینان بخش ہو جائے تو ترقی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ عالمی اداروں کے تخمینے کے مطابق رواں برس پاکستان میں بیروزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا امکان ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ تعداد 58 لاکھ تھی۔ لیبر فورس سروے بتاتا ہے کہ بیروزگار نوجوانوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو تعلیمی ڈگری رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ انہیں دی گئی تعلیم کا نئے معاشی مواقع سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا ملک بن گیا ہے۔ 21 کروڑ سے زائد آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس حساب سے 2030ء تک مجموعی آبادی 28 کروڑ ہونے کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو روزگار اور خوراک کی فراہمی کے لیے بڑی سرمایہ کاری اور کثیر تعداد میں ماہرین کی خدمات درکار ہیں۔ زراعت پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہے۔زراعت کا قومی جی ڈی پی میں 19 فیصدحصہ ہے ، اس کے علاوہ زراعت سے متعلقہ مصنوعات کا ملکی آمدنی میں حصہ 80 فیصد تک ہے۔ زرعی شعبہ سے 42.3 فیصد آبادی کا روزگار وابستہ ہے۔سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب زرعی پیداوارکا سب سے بڑا حصہ فراہم کرتا ہے۔ پنجاب کی 48 فیصد آبادی کے روزگار کا ذریعہ بھی زراعت ہے۔ زرعی شعبہ بڑی صنعتوں مثلاً ٹیکسٹائل،چمڑے،چاول کی پروسیسنگ،خوردنی تیل اور فوڈ پروسیسنگ کو خام مال مہیا کرنے کا ذریعہ ہے۔پاکستان کی مجموعی برآمدات میں زراعت کا حصہ تین چوتھائی ہے اور اس کا 60 فیصد صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔کئی برسوں سے پنجاب ملک میں جاری فوڈ سکیورٹی کے چیلنج سے نبرد آزماہے۔ صوبہ پنجاب آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 20.63 ملین ایکڑ ہے جو کل اراضی کا 25.9 فیصد بنتا ہے۔زمین کے استعمال کی حثیت کے مطابق مجموعی طور پر 86 فیصد علاقہ قابل رسائی ہے جبکہ 14 فیصد علاقہ کی رپورٹ نہیں ہے۔مزید14 فیصد رقبہ زراعت کیلئے دستیاب نہیں ہے جو مکمل طور پر یا تو زرخیز ہے یا انفراسٹرکچر کے زیر تسلط گردانا جاتا ہے۔نتیجتاًصوبہ کا72 فیصد رقبہ کاشت کیلئے دستیاب ہے۔اس میں سے10.81 ملین ایکڑ(53%)رقبہ پر فصلوں کی بوائی کاکام ہوتا ہے؛ یہ وہ رقبہ جسے کم از کم سال میں ایک مرتبہ زیر کاشت لایا جاتا ہے۔9 فیصد اراضی کو موجودہ آبشار کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے۔8 فیصد اراضی کو متروکہ رقبہ کے طور پر نشان زد گردانا گیا ہے جس کا مطلب ہے یہ وہ رقبہ ہے جو تین سال سے زیادہ عرصے سے قابلِ کاشت نہیں ہوتا اوراسے کاشتہ رقبہ کا ہی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ 2016-17ء میں ہونے والی مردم شماری کی رو سے صوبہ پنجاب میں 52 لاکھ49 ہزار800 زرعی فارمز موجود ہیں۔یہ فارمز بہت چھوٹے کھیتوں پر مشتمل ہیں۔42 فیصد فارمز 1 ایکڑ سے بھی کم رقبہ پر ہیں۔1 سے لیکر10ایکڑ تک فارمز مجموعی تعداد کا نصف ہیں جو کہ68.9 فیصد ِ اراضی پر مشتمل ہیں۔10 یا اس سے زائد رقبہ کے فارمز 22.2 فیصد رقبے پر مشتمل ہیں۔صوبہ پنجاب کا مجموعی قابلِ کاشت رقبہ 16.68 ملین ایکڑ ہے جس میں سے5.87 ملین ایکڑ رقبہ کی بوائی سال میں ایک بار ہوتی ہے۔مالی سال 2018-19ء کے دوران گندم 40، کپاس11.5 اور دھان 12.8 فیصد رقبہ زیر کاشت لایا گیا۔ صوبہ میں لائیو سٹاک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے چارہ11 جبکہ مکئی اور گنے کی کاشت بالترتیب 4.2 اور4.8 فیصدرقبہ پر کاشت کی گئی۔تیلدار اجناس،دالوں اور سبزیات کی 12 فیصد رقبہ پر کاشت ہوئی۔محکمہ زراعت پنجاب کا مقصد صوبے میں غذائی تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے زرعی لاگت کو موثر انداز میں جدید پیداواری ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہے جس سے کاشتکار خوشحال ہوں اور اْن کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ فوڈ سکیورٹی ایک وسیع المعانی اصطلاح ہے۔ اس کے دائرے میں خوردنی تیل‘ غذائی اجناس‘ پھل‘ سبزیاں‘ چینی‘ زرعی ٹیکنالوجی اور اناج ذخیرہ کرنے والے جدید گودام تک آتے ہیں۔صوبہ سندھ، کے پی کے ،بلوچستان ،گلگت بلتستان اور کشمیر میں کئی طرح کے محفوظ زرعی و افرادی وسائل ہیں جن کو اب تک بروئے کار نہیں لایا جا سکا۔ وطن عزیز کی حالت یہ ہے کہ ہر سال اربوں روپے خوراک اور زرعی پیداوار کی درآمد پر خرچ ہو جاتے ہیں حالانکہ لاکھوں ایکڑ زمینیں بے آباد پڑی ہیں۔ کئی طرح کے مسائل ہیں۔ زرخیز زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کیا جارہا ہے‘ ناقص بیچ اور زرعی ادویات کی بھرمار ہے۔ کسانوں کی رہنمائی کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ جدید تحقیقی لیبارٹریاں قائم ہونا ہیں۔ نئی فصلوں کی حوصلہ افزائی اور مارکیٹ کرنے کا نظام درکار ہے۔زیتون کے باغات لگ رہے ہیں‘ اگلے مرحلے پر تیل نکالنے کی ٹیکنالوجی عام کرنا ہوگی۔ سب سے اہم معاملہ گندم‘ چاول اور مکئی کی فی ایکڑ پیداوار بڑھانا ہے۔ 30من کی جگہ ایک ایکڑ سے 80 من گندم لینے کے لیے منصوبہ بندی چاہیے۔ حالیہ برسوں میں یہ معاملہ اجاگر ہوا ہے کہ گندم وافر ہونے کے باوجود بعض عناصر اس کی کمی پیدا کردیتے ہیں۔ فوڈ سکیورٹی کے پہلو سے یہ تشویشناک بات ہے۔ وزیراعظم اکثر بیروزگاری اور فوڈ سکیورٹی پر اپنی فکر مندی ظاہر کرتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ایک دوسرے سے جڑے ان مسائل کے مستقل حل کے لیے فوری طور پرماہرین پر مشتمل سابق کمیٹیوں کی سفارشات پر عملدرآمد کا آغاز کردیا جائے۔