لغوی طور پر’’بیعت‘‘عہد و پیمان کو کہتے ہیں‘بیع اور بیعت کا مادہ ایک ہی ہے۔’’بیعت‘‘ایک سوشل کنٹریکٹ یعنی سماجی یا معاشرتی معاہدہ ہے‘جو اسلامی مملکت کے حکمران کی تخت نشینی کے موقع پر وقوع پذیر ہوتا ہے۔اس سے مراد فقہا امت کے نزدیک کسی شخص کو خلافت کا رتبہ اور منصب عطا کرنا‘یہ ایک معاہدہ ہے۔جس کا ایک فریق وہ شخص ہے جو اس عہدے کو قبول کرے اور دوسرا فریق جماعت اسلام ہے۔اس ضمن میں ابن خلدون کے الفاظ ملاحظہ ہوں: ’’جان لو: بیعت ہے۔اطاعت کا عہد ھے،گویا بیعت کنندہ اپنے امیر کے ساتھ عہد باندھتا ہے کہ اسکا معاملہ اسکے سپرد ہے۔وہی اسکے معاملات میں فیصلے کرے،وہی دیگر مسلمانوں کے معاملات میں‘یہ کسی چیز میں اْس سے نہ الجھے گا،وہ اسکو جس چیز کا مامور کرے‘یہ اسکی اطاعت کرے گا‘دل چاہے تب‘دل نہ چاہے تب۔دستور تھا کہ جب لوگ امیر کی بیعت کرتے اور اسکے ساتھ عہد باندھتے‘ تو اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دے دیتے‘عہد کو پختہ کرنیکے انداز میں‘جیسے سودا طے کرتے وقت‘فریقین کرتے ہیں۔یوں اسکا نام ’’بیعت‘‘ پڑ گیا جو کہ باع‘یبیع سے ماخوذ ہے،گویا خلافت اسلامی میں مسلم اکثریت کی رائے اور تائید کے حصول کا یہ منفرد ادارہ’’بیعت‘‘ کے نام سے موسوم ہوا‘جسکی بنیاد وہ رضا کارانہ معاہدہ بنا جو حاکم و محکوم کے درمیان استوار ہوا‘ کہ حاکم اللہ کے دین کو نافذ کرے گا اور محکوم اسے تسلیم کرے گا۔خلافت کے انعقاد میں یہ شرط بنیادی اور کلیدی ہے،اسکے بغیر کوئی فرد خلیفہ قرار پا ہی نہیں سکتا۔دور جدید کے جمہوری نظام میں’’ووٹ‘‘ کے طریق کار کو عوام الناس کی رضا مندی کے حوالے سے بیعت سے مشابہ یا اس کا بدل قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ دونوں کے مقاصد اور طریق کار میں بہت بنیادی فرق ہے۔جمہوری نظام میں ووٹ، اقتدار کا وہ حصہ ہے‘جو ووٹر اپنے نمائندے کو اس وعدے اور امید پر دیتا ہے کہ کل کو وہ منتخب ہو کر اس کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔یہ امر اسکا حق ہے۔ نظام خلافت میں یہ حق نہیں‘بلکہ ذمہ داری ہے۔اقتدار ذاتی ملکیت نہیں‘اللہ کی ملکیت اور خلیفہ وقت کے پاس اللہ کی امانت اور تمام شہری اس امانت کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق استعمال کرنے کا عہد لیتے ہوئے‘خلیفہ کو یہ اختیار اور ذمہ داری سونپتے اور پھر اس شرط کے ساتھ‘اسکی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کرتے ہیں۔اسلامی اصول سیاست میں خلیفہ اور رعایا کا تعلق‘’’اطاعت فی المعروف‘‘ اور’’تعاون علی البر‘‘ کی بنیاد پر‘بیعت کے ذریعے استوار ہوتا‘جبکہ جمہوری ریاست میں ووٹ دینے اور لینے والے کا تعلق…محسن اور ممنون کا ہے‘اس میں اطاعت وغیرہ کا کوئی تصور کارفرما نہیں ہوتا۔ووٹ کا تعلق دنیاوی سیاست و مفادات تک محدود،جبکہ بیعت دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی کا باعث۔ان دونوں نظام ہائے حکومت میں ایک نمایاں اور بنیادی فرق،کہ سیاسی نمائندہ خود کو نمائندگی کے لئے پیش کرتا اور ووٹ مانگتا ہے جبکہ’’خلافت‘‘میں یہ امر سرے سے ممنوع ہے‘اسی طرح ووٹ خفیہ رائے دہی جبکہ بیعت علی الاعلان اور برسر عام ہوتی ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک بیعت یعنی اظہار وفاداری اولاً امت کے اصحاب حل و عقد کی طرف سے عمل میں نہ آ جائے اصحاب حل و عقد کی طرف سے مصنہ شہود پہ آنے والا انتخاب’’ید اللہ علی الجماعہ‘‘ کے مصداق منشا ربانی کا اظہار اور خیر و برکت کا ذریعہ جانا جاتا ہے۔یہی اصحاب حل و عقد انتخاب اور بیعت کے بعد کار حکومت اور امور سلطنت میں مرجع کا کام سرانجام دیتے ہیں۔جبر اور دھونس کے ذریعے بیعت یا ووٹ کا اختیار دنیا کے کسی ملک،مذہب یا سوسائٹی میں نہیں‘کجا دین اسلام۔جو شرف آدمیت اور تکریم انسانیت کا امین اور حریت فکر اور آزادی رائے کا علمبردار ہے‘وہ اس کو کس طرح روا رکھنے کی اجازت دے سکتا ہے۔بہرحال اس ضمن میں حکمران کے حق اجتہاد کا دائرہ کار مصالح ملکی‘اور نظم و نسق میں شوریٰ کا رول اور اصحاب حل و عقد کی دستوری اور آئینی حیثیت اور حدود و قیود پر ابن خلدون اور الماوردی سمیت ماہرین فکر و فن نے خوب گفتگو کی ہے۔اس ضمن میں ایک بڑا ہی اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ اگر خلیفہ یا حکمران کی بیعت نہ کرے تو اسکے ساتھ ریاست یا سٹیٹ کو کیا سلوک کرنا چاہیے۔جس طرح انصاری سردار سعد بن عبادہ نے ساری زندگی حضرت ابوبکر صدیقؓکی بیعت نہ کی‘ایسی مثالیں اور بھی ہونگی‘تاہم خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓنے نہ کبھی ان سے تعرض کیا اور نہ انکے اکرام میں کبھی کمی آنے دی۔دوسری طرف ان لوگوں نے بھی حکومت کے معاملات میں کبھی رکاوٹ نہ ڈالی‘بلکہ حکومتی پالیسیوں کی تائید اور مختلف جنگی مہمات میں شریک رہے۔گویا بیعت خلافت’کوئی ایسا سنگین معاملہ بھی نہیں کہ جس کی عدم دستیابی کے سبب‘آپ کسی کے جان کے درپے ہو جائیں۔ عہدِ رسالت مآب میں اسلام قبول کرنے والے‘رسول اللہ کے دست مبارک میں اپنا ہاتھ دے کر اسلامی عقائد و احکام پر چلنے کا عہد کرتے تھے یہ مخصوص طریقہ بیعت کہلاتا۔نبی اکرم سے بیعت علی الہجرہ‘بیعت علی الجہاد اور بیعت علی الاطاعہ۔۔۔معروف اور مستند اور شرعی نصوص سے ثابت ہیں۔اسی طرح کسی شیخ طریقت‘ہادی برحق اور مصلح و مرشد کے ہاتھ پر توبہ کر کے اسکے ساتھ یہ عہد کرتا کہ آئندہ زندگی شریعت کے ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے اپنے بزرگوں کے مخصوص اورادو وظائف پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کروں گا‘یہ بیعت طریقت ہے‘ اسی سے باقاعدہ سلاسل طریقت کی ترویج ممکن ہوئی۔نقشبندی ‘چشتی‘ قادری اور سہروردی سلسلے معروف ہوئے۔اسی بیعت میں مرید اپنے شیخ سے‘اپنی مطلق اطاعت اور حکم برداری کے عہد کے بدلے میں روحانی فیض کے حصول کا متمنی ہوتا رہے۔ خلفائے راشدین کے عہد میں خلیفہ وقت ہی بیعت لیتا‘دوسرے صحابہؓ اس لئے بیعت نہ لیتے کہ کہیں بیعت خلافت کا شبہ نہ ہو۔خلفائے راشدین کے عہد کے بعد‘خلافت کا معاملہ نظم سلطنت کی حد تک سمٹ کر رہ گیا‘تو سلف صالحین نے بیعت توبہ والی سنت کو زندہ کیا۔حضرت ابوبکر صدیقؓاور حضرت علی المرتضیٰؓ سے چونکہ سلاسل طریقت کا بھی اتصال رہا‘اس لئے ان کے وجود باطنی نعمتوں سے بھی مالا مال تھے جیسا کہ حدیف شریف ہے۔ ’’اللہ نے میرے سینے میں جو کچھ ڈالا‘میں نے اسے ابوبکرؓ کے سینے میں ڈال دیا‘‘ اس بیعت کا مقصد اصلاح نفس اور ابتاعِ رسول ہے۔یہ بیعت صوفیا کے ہاں کئی طریقوں سے رائج ہے جسے ایک طریقہ بیعت معاصی یعنی گناہوں سے توبہ ہے۔اسی طرح ’’بیت تبرک‘‘ یعنی صالحین کے سلسلے میں حصول برکت کیلئے داخل ہونا‘ایک’’بیعت عزیمت‘‘یعنی عزم مصمم کرنا کہ وہ اللہ کے احکام کی پیروی اور برائی سے بچنے کی کوشش کرے گا۔حضرت شاہ ولی اللہ نے اس بیعت کے بارے میں لکھا ہے کہ بیعت سنت ہے اس لئے صحابہ کرامؓ نے حضور اکرم سے بیعت کی اور اسکے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا۔جبکہ اس تارک بیعت کے حوالے سے معصیت کا کوئی بیان نہ ہے۔ اطاعت کے تصور کو اموی اور بعد کے آنے والے خلفأ نے بیعت کے ذریعے عملی جامہ پہنایا،بیعت کے طریق کار میں معمولی فرق یوں آیا کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں توخلیفہ اپنی بیعت لینے کیلیے خود موجود ہوتا اور ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرتا،لیکن خلافتِ راشدہ کے بعد جو دور آیا،ان میں خلیفہ صرف’’ بیعتِ خاص ‘‘کے موقع پر موجود ہوتا۔’’بیعت عام‘‘ کے لیے خلیفہ کی بجائے اس کے مقرر کردہ عمال (گورنر) کے ہاتھ پر بیعت کو کافی سمجھا جاتا،جیسا کہ یزید نے بر سرِ اقتدار آنے پر مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو بذریعہ مراسلہ حکم دیا کہ وہ حسین ابن علیؓسے انکی حکومت کی بیعت لیں،چنانچہ ولید گورنر مدینہ کی خواہش پر۔مدینہ کے گورنر ہاوس میں ،رات کی تاریکی میں ، یزید کی بیعت کا معاملہ ،امام عالی مقامؓ پر پیش کیا گیا ،آپ ؓ نے گورنر کو برملا اور دوٹوک انداز مین فرمایا کہ ہم لوگ خفیہ بیعت کرنے والے نہیں ،یعنی ’’بیعت‘‘ کا معاملہ روز روشن میں سب کے سامنے طے ہونے والا ہے ،آپؓ کے اس جملے میں ’’نظام خلافت ‘‘کا پورا فلسفہ موجود تھا۔یعنی خلافت کا تفویض ہونا ارباب حل و عقد کے ذریعہ ہی ممکن ہے ،جو امت کی اجتماعی آواز کے امین اور علمبردار ہیں۔مزید براں اس میں ایک تبدیلی اور رونما ہوئی ،کہ اب خلافتِ راشدہ کے دور کی طرح ، اب ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا جاتا تھا بلکہ دور ہی سے ہاتھ اْٹھا کر سلام کرنا، یا کئی بار خلیفہ کے ہاتھ یا زمین کا بوسہ لیناہی بیعت کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا،طریق کار،کایہ فرق۔۔۔حاکم اور محکوم ۔۔راعی اور رعایا کے درمیان فرق وامتیاز قائم کرنے کا باعث ہوا،اس سے حاکم اور خلیفہ کو ایک ماورائی ہستی کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ یہ محض طریقہ کار کا فرق نہ تھا بلکہ طریقِ کار سے زیادہ،اصل فرق اس فکر اور سوچ کا تھا جس سے بیعت اور اس سے متعلق پور ا نظام بگڑنے جارہا تھا ، بیعت کا ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا کہ جب ایک بار بیعت ہو جائے تو پھر عوام پر خلیفہ کی ہر حال میں اطاعت ناگزیر ہے۔ خلیفہ کی بیعت ہوجانے کے بعد،پھر عوام کی اس سے علیحدگی اور برأت ناممکن بلکہ غیر قانونی ہے،اور اسکی سزا وہی مقرر کی گئی جو ایک باغی کی ہوتی،چنانچہ یزید نے امام حسینؓ کے بیعت سے انکار کو ریاست اور حکومت کے خلاف بغاوت اور غداری قرار دیا،یزید کا یہ روّیہ اور انداز فکر بیعت کے اسلامی تصوّر کو مسخ کرنے کے مترادف تھا۔ کیو نکہ اسلام میں بیعت دو طرفہ معاملہ ہے۔ یعنی ایک طرف خلیفہ بیعت کے ذریعے اپنے انتخاب کے حق اور جائز ہونے کی تائید چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ قانون کی بالا دستی کا بھی اقرار کرتا ہے،جیسے خلفأ راشدین کرتے رہے۔ اور وہ اپنے آپ کومحاسبے اور تنقید کے لیے پیش کرتے رہے۔