رواں برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان امن معاہدے کے مطابق مارچ میں بین الافغان مذاکرات ہونے تھے،لیکن افغانستان حکومت کی طرف سے طالبان قیدیوں کی رہائی میں تاخیر اور کورونا وائرس وبا کی وجہ سے یہ بات چیت بروقت شروع نہ ہوسکی۔تقریبا ساڑھے چھ مہینے تاخیر کے بعد 12 ستمبر کو دوحامیں بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد افغانستان حکومت کے اکیس رکنی وفد جس کی سربراہی این ڈی ایس کے سا بق سربراہ محمدمعصوم ستانگزئی کر رہے ہیں طالبان کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے ۔ اس مذاکراتی وفد میں پانچ خواتین حبیبہ سرابی، فوزیہ کوفی، فاطمہ گیلانی ، شہلا فرید اور شریفہ زرمتی بھی شامل ہیں۔دونوں فریقین کے درمیان گزشتہ ایک مہینے سے بات چیت ہورہی ہے ۔افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان اس بات چیت کا بنیادی مقصد بین الافغان مذاکرات کے لئے لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کرنا ہے۔دونوں فریقین کے درمیان چونکہ اعتماد کی کمی ہے اس لئے پہلے ہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھاکہ جب تک کسی نقطے یا مسئلے پر باہمی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا تو اسے عام نہیں کیا جائے گا۔لیکن اس دوران بعض متنازعہ امور کو کہ جس پر ابھی بات چیت چل رہی تھی اور اس کے بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہواتھا افغانستان حکومت کے مذاکراتی وفد نے اسے عام کر دیا۔ جس پر طالبان نے ناراضگی کا اظہار کیا۔چند دنوں تک مذاکرات سست روی کا شکار رہے اور طالبان نے ان متنازعہ امور پر اپنا موقف دنیا کے سامنے رکھا۔ دونوں فریقین کے درمیان زیادہ تر امور پر اتفاق رائے ہوگیا ہے ،لیکن دو نکات ایسے ہیں کہ جن پر اختلاف ابھی بھی موجود ہے۔ابتداء میں حکومتی وفد کی کوشش تھی کہ طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کرے ۔ لیکن طالبان نے موقف اختیار کیا کہ ہم مدافعانہ طرزعمل اختیار کئے ہو ئے ہیں۔حملہ ہم پر کیا گیا ہے ۔ ہم نے کسی پر حملہ نہیں کیا ہے ،اس لئے اپنے دفاع کے لئے لڑنے کو ہم ختم نہیں کر سکتے۔ان کے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔اس دوران دوبارہ اس بات پر اتفاق کیا گیاکہ جب تک فریقین کے درمیان کسی معاملے پر مکمل اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا اسے عام نہیں کیا جائے گا۔دونوں فریقین اس بات پر آمادہ ہوئے کہ جن امور پر اتفاق رائے پیدا ہوجائے تو اسے مشترکہ اعلامیہ کے صورت میں پیش کیا جائے گااور یوں بات چیت کا یہ عمل دوبارہ پٹڑی پر آگیا جس کی رفتار اب تیز ہو گئی ہے۔ اس وقت دونکات پر دونوں فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے ۔افغانستان حکومت کا مطالبہ ہے کہ طالبان ان کے ساتھ نیا معاہدہ کر لے ،جس کے تحت بین الافغان مذاکرات ہونگے۔ اس کے برعکس طالبان کا موقف ہے کہ جو بھی بات چیت ہو گی وہ فروری میں امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی بنیاد پر ہوگی۔طالبان فروری کے امن معاہدے کوبنیاد بنانے پربضدہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک ہم نے افغانستان حکومت سے براہ راست بات چیت نہیں کی ہے بلکہ ہم 29 فروری کو ہونے والے معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات کے لئے لائحہ عمل بنا رہے ہیں اس لئے یہی معاہدہ مستقبل میں تمام بات چیت کا مرکز ومحور اور بنیاد ہوگا۔فروری کے امن معاہدے کو طالبان اس لئے بھی بنیاد بنانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ مستقبل میں بین الافغان مذاکرات میں اگر کوئی رکاوٹ آئے تو امریکا اس کو دور کرنے ،افغانوں کے درمیان معاہدہ ہونے اور پرامن طور پر جنگ کے خاتمے تک وہ اس بات چیت کا حصہ رہے۔ دوسرا نقطہ جس پر دونوں فریقین کے درمیان اختلاف موجود ہے وہ یہ ہے کہ طالبان کا موقف ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں جوبھی قانون سازی ہوگی وہ قرآن و سنت کے مطابق ہوگی۔اس نقطے پر حکومتی وفد نے یہ سوال اٹھا یا کہ قانون سازی کون سی فقہ کے مطابق ہوگی ۔جس پر طالبان نے جواب دیا کہ چونکہ افغانستان میں اکثریت ان مسلمانوں کی ہے جو فقہ حنفی کومانتے ہیں اس لئے قانون سازی فقہ حنفی کے مطا بق ہو گی۔اس جواب پر اہل تشیع نے مطالبہ کیا کہ ان کی فقہ کو بھی تحفظ دیا جائے ۔اہل تشیع کے اس مطالبے پر طالبان نے موقف اختیار کیا کہ بین الافغان مذاکرات کے لائحہ عمل میں اس کی ضرورت نہیں ،لیکن جب قانون سازی ہوگی توپھر فقہ جعفریہ کو بھی مدنظر رکھا جائے گا جس پر قانون سازی کرتے وقت بات چیت ہوگی، لیکن مخالف فریق یہ موقف ماننے کو تیار نہیں اس لئے اس نقطے پر بھی اختلاف برقرار ہے۔ اگرچہ طالبان اس بات کی تردید کررہے ہیں کہ دوحا میں جاری بین الافغان مذاکرات میں امریکا یا کسی اور ملک کا کوئی نمائندہ معاونت کے لئے شامل نہیں لیکن زلمے خلیل زاد کی دوحا میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا بین الافغان مذاکرات میں دونوں فریقین کی مکمل معاونت کر رہا ہے ۔جہاں ان کو رکاوٹ نظر آتی ہے تو وہ دیگر ممالک سے رابطہ کرکے ان رکاوٹوں کو دور بھی کرتا ہے۔بین الافغان مذاکرات میں پاکستان سے بھی مشاورت جاری ہے ۔ رابطہ کاری کے فرائض زلمے خلیل زاد سرانجام دے رہے ہیں۔امریکا کی کوشش ہے کہ صدارتی انتخابات سے قبل وہ افغانستان سے افواج کے کچھ دستے نکال لیں تاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کرسکے۔لیکن یہ تب ممکن ہوگا کہ جب ان کو امید کی کوئی کرن نظر آئے۔اگر امریکا اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوجاتا تو پھر ان کی کوشش ہوگی کہ صدارتی انتخابات سے قبل اس بات کو ممکن بنائے کہ افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے لئے فریقین کے درمیان اتفاق رائے پیداکرکے مشترکہ اعلامیہ جاری کرے تاکہ انتخابی مہم کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ قوم کویہ باور کرائے کہ گز شتہ انتخابات میں افغان جنگ کے بارے میں جو وعدہ انھوں نے کیا تھا اس کو پورا بھی کر دیا۔