امریکہ اور افغان طالبان کے بیچ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کو اگرچہ میں نیک شگون سمجھتا تھا لیکن ساتھ ساتھ میرے خدشات بھی بڑھتے جارہے تھے- مجھے ڈر تھا کہ ان مذاکرات کی کامیابی کے بعد افغان وطن کے حقیقی اسٹیک ہولڈرز کے مابین شروع ہونے والی حقیقی ڈائیلاگ( بین الافغانی مذاکرات) میں کہیں طالبان پھر سے ٹانگ اڑانے پر اصرار نہ کریں۔میںاپنے بے شمار مضامین میں یہاںتک میںلکھ چکاہوں کہ شایدطالبان امریکی انخلا کو اپنی جیت قرار دے کر ایک مرتبہ پھر افغانستان میں اپنی اَنانیت کا لوہا منوانے پر بضد رہیں گے۔لیکن دوحہ مذاکرات کے بعد میرا یہ خدشہ درست ثابت نہیں ہوا کیونکہ طالبان کی بجائے اَنانیت اور ہٹ دھرمی افغان صدر جناب اشرف غنی کے حصے میں آئی ۔ خاطر غزنوی کا شعر یاد آیا، گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے دوحہ ڈائیلاگ اعلامیے کے بعداشرف غنی کی طرف سے فوری طور پر یہ بیان سامنے آیا کہ طالبان کے ساتھ ان کے قیدیوں پر ہماری کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔اپنے بیان میں جناب غنی کا یہ بھی کہنا تھاکہ امریکہ کے پاس طالبان قیدیوں کی رہائی کا کوئی اختیار نہیں بلکہ یہ افغان حکومت کی اتھارٹی ہے۔بدقسمتی سے اشرف غنی کے بیان کے ردعمل میںاگلے روز پھر وہی ہوا جس کا انتظار تھا ۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ جب تک ہمارے پانچ ہزار قیدی رہا نہیں کیے جائینگے تب تک وہ بین الافغانی مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے‘‘- میں نہیں سمجھتا کہ صدر اشرف غنی کب، کیسے اور کس طرح افغانستان کو پُرامن اور خوشحال ملک بنانا چاہتے ہیں؟کیونکہ ہر سلیم الحواس بندہ سمجھتا ہے کہ اس نازک مرحلے پر خیر سگالی اور لچک کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ہٹ دھرمی دکھانااور سخت بیانات جاری کرناافغان امن کیلئے کسی طور بھی ممد و معاون ثابت ہو سکتا۔انیس سال کی طویل خونریزی کے بعد اب بھی اگر امن کو موقع دینے سے گریز کیا جائے تو پھر اس بدقسمت ملک کا اللہ ہی حافظ ہو۔طرفہ تماشاتویہ ہے کہ بیس سال سے امریکہ کو اپنا آقا اور مربی سمجھنے والے جناب غنی کو ایک ایسے مرحلے پر اچانک اپنی خودمختاری اور اتھارٹی یاد آگئی جب افغانوں کے درمیان مذاکرات کی راہیں ہموار ہوگئیںہیں۔کوئی ہے جو جناب غنی سے پوچھیں کہ آپ جس حکومت کو خود مختار سمجھ بیٹھے ہو ، وہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھرغیر شفاف اور دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں آئی ہے۔ہم نہیں بلکہ سب سے پہلے افغان سابق صدر حامد کرزئی ان انتخابات کو افغانستان کے اساسی قانون کے خلاف اور امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔کسے یاد نہیں کہ انتخابات کے نتائج آنے کے اگلے روز جناب کرزئی ،عبداللہ عبداللہ ، گلبدین حکمتیار اور بے شمار دیگر سیاسی رہنماووںکے ساتھ ملاقاتیں کرکے یہ اعلامیہ جاری کردیا تھاکہ’’ بین الاقوامی برادری اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک ان انتخابات کو ماننے سے گریزاں رہے‘‘- اب جب حامد کرزئی جیسے طویل تجرے رکھنے والے اور افغانوں کے مزاج سے حددرجہ واقف شخصیت بھی ان نتائج کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں توپھر اس کی اتھارٹی کی آخر حیثیت کیا ہو گی ؟ حامد کرزئی جیسے لوگ مذکورہ انتخابات کے انعقاد کے حق میں اسلئے بھی نہیں تھے کہ ایسے غیر یقینی صورتحال میں انتخابات کے انعقاد کا سوائے تضادات اور اختلافات کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے ۔قیدیوں کی رہائی پر ہٹ دھرمی دکھا کر اشرف غنی نے نہ صرف اپنے آپ کو بے اعتبارثابت کردیا بلکہ دوحہ ڈیل میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق موجود شق کی مخالفت کرکے انہوں نے اُس امریکہ کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کردیں جو پچھلے دودہائیوں سے ان کی سرپرستی کرتاآرہا ہے۔ یاد رہے کہ ان پانچ ہزار قیدیوں میں دو تہائی سے زیادہ قیدی امریکی اور اس کے اتحادی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ہیں ۔ کچھ بعید نہیں کہ دوحہ ڈیل کی لاج رکھنے کی خاطر امریکہ اشرف غنی سے ان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ اس لئے بھی کرے کہ یہ دراصل امریکہ ہی کے قیدی ہیںیوں اس کی رہائی کافیصلہ بھی امریکہ کرلے گا۔سچی بات یہ ہے کہ بین لافغان مذاکرات میں رکاوٹ ڈال کر اشرف غنی اپنی حکومت کو بچانا چاہتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ جب ایک مرتبہ افغانوں کے درمیان مذاکرات کیلئے میدان سجے گا تو پھر ان کو دھاندلی کے نتیجے میں ملنے والی حکومت کی بھی قربانی دینی پڑے گی ۔غور کیاجائے تو بین الافغانی مذاکرات کی کامیابی کا حل بھی یہی ہے کہ موجود ہ سیٹ اپ کو تحلیل کرنا پڑے گاجس کوتسلیم کرنے کیلئے طالبان تیار ہیںنہ ہی حامد کرزئی، گل بدین حکمت یاراورعبداللہ عبداللہ جیسے لوگ اس کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔لہٰذا اس شورش زدہ ملک میںامن کو موقع دینے کیلئے ضروری ہے کہ جناب اشرف غنی دوحہ ڈیل کو تسلیم کرکے دس مارچ کو متوقع بین الافغانی مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کریں نہ کہ اس میں خلل ڈالنے پر مصر رہے ۔اسی طرح طالبان کو چاہیے کہ مزید بیرونی آلہ کار بننے اور دوسروں کی ڈکٹیشن لینے کی بجائے وہ دائمی امن اور افغان ملت کے وسیع تر مفاد میں مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں اپنا مخلصانہ کردار ادا کریں۔ وماعلینا الاالبلاغ۔۔۔۔۔