سٹیٹ بینک آف پاکستان نے دو ماہ کے لیے مانیٹرنگ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود سات فیصد سالانہ برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ کسی بھی ملک کی شرح سود کا ملکی معیشت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سرمائے کو گردش میں رکھنے کے لیے حتی الامکان حد تک شرح سود کم رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ماضی کے حکمرانوں نے زرمبادلہ کے ذخائر قائم رکھنے کے لیے شرح سود بارہ فیصد تک بڑھا دی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر ملکی مالیاتی اداروں نے اپنا سرمایہ تو پاکستان منتقل کردیا اور اربوں ڈالر سالانہ منافع کی صورت میں بھی لے اڑے مگر ملکی سرمایہ کاروں نے بلند شرح سود کی وجہ سے اپنے کاروبار سمیٹ لیے اور ملک کی صنعتیں بند ہونا شروع ہو گئیں جس سے ملک میں بیروزگاری میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ملکی برآمدات بھی کم ہونا شروع ہو گئیں۔ موجودہ حکومت کویہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ اس نے مختلف مراحل میں شرح سود سات فیصد تک کم کی جس کے نتیجے میں نہ صرف درآمدات میں کمی ہوئی بلکہ ملکی صنعتیں فعال ہونے سے برآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔ ٹیکسٹائل سیکٹرکو30 برس بعد برآمدات کا تاریخی آرڈر ملنا اس کا ثبوت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سٹیٹ بینک کا شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ لائق تحسین ہے۔ بہتر ہوگا حکومت شرح سود کو مزید کم کرنے کے ساتھ بینکوں کو قرضوں کے اجراء کے عمل کو تیز کرنے کا بھی پابند کرے تاکہ صنعتکاروں کو سرمایہ کاری پر آمادہ کرکے بیروزگاری کو کم کیا جا سکے۔