دنیا دار کہتا ہے کہ نوٹ ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ جسے دکھائی دیتا ہے وہ ہاتھ بڑھا کر نوٹ پکڑ لیتاہے۔ درویش سمجھاتا ہے کہ انسان کی دکھائی دینے والی دو آنکھوں کے علاوہ لاکھوں آنکھیں اور بھی ہیں۔ جس کی جتنی آنکھیں کھل جاتی ہیں اسے اتنا زیادہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ چھپی ہوئی کائنات اور اس کی سچائیاں دیکھنے کے لئے روحانیات والے اور ‘اوراد اور ارتکاز کو ذریعہ بناتے ہیں جبکہ ان پوشیدہ سچائیوں کو دنیا کے سامنے لانے کا میڈیم تلاش کرنے والے سائنسدان کہلاتے ہیں۔ روحانی لوگ اپنے مشاہدے کو کاروبار نہیں بناتے۔ سائنسدانوں کی تحقیق کے پیچھے سرمایہ زور لگا رہا ہوتا ہے۔ جی پی ایس ایک امریکی نظام ہے۔ آپ نے اوبر یا اس جیسی سروسز فراہم کرنے والی ٹیکسی منگوانی ہو تو انٹرنیٹ کے ذریعے جی پی ایس ٹیکنالوجی آپ کی مدد کرتی ہے۔ گلوبل پوزیشنگ سسٹم(GPS) امریکی ملکیت میں ہے۔ امریکہ کے میزائل اس سسٹم سے لیس ہیں۔ میزائلوں کے اندر ان کے ہدف تک پہنچنے کا روٹ ڈال دیا گیا ہے۔ جیسے ہی میزائل چھوڑا جاتا ہے وہ اوبر ٹیکسی کی طرح ہدف کو ڈھونڈتا ہوا اس تک پہنچ جاتاہے۔ امریکی بحریہ‘ فضائیہ بری فوج اور خصوصی کمانڈو دستے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دشمن کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ امریکہ نے پرانے نیویگیشن سسٹم ترک کر کے 1973ء میں جی پی ایس متعارف کرایا۔ اس نظام کو امریکی محکمہ دفاع نے تیار کیا۔ اس نظام کی تشکیل کے لئے خلا میں 24سیارے چھوڑے گئے۔ انیس سو اسی کی دہائی میں اس ٹیکنالوجی کو سول معاملات میں استعمال کیا جانے لگا۔ امریکہ کی نیول ریسرچ لیبارٹری‘ ایرو سپیس کارپوریشن‘ اپلائیڈ فزکس لیبارٹری کے بریڈ فورڈ پارکنسن کو اس ٹیکنالوجی کے موجد اور بانی کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے ڈرون طیارے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے افغانستان اور پاکستان کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو ڈھونڈتے رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی امریکہ کی طیارہ ساز کمپنی کے کاروبار کو بڑھا رہی ہے۔ امریکہ ایسی موٹر کاریں بنا رہا ہے جو جی پی ایس سسٹم کے ذریعے چلتی ہیں۔ ایسے روبوٹ بنائے جا رہے ہیں جو اپنے اہداف تک پہنچ سکتے ہیں۔ بات چابی بھرے کھلونوں سے بہت آگے جا چکی ہے۔ جی پی ایس نظام نے ایک نئی کاروباری منڈی قائم کر لی ہے جہاں امریکہ سے خوشگوار تعلق رکھنے کے خواہشمند ممالک اس سے جی پی ایس سسٹم والے موبائل فون‘ گاڑیاں‘ طیارے‘ میزائل آبدوزیںاور نیویگیشن نظام خرید رہے ہیں۔ ایٹم بم دشمن کے ساتھ ساتھ دشمن کے کاروبار‘ معدنیات‘ جنگل اور دریا تباہ کر دیتا ہے۔ جی پی ایس کے ذریعے کسی ملک کی ہر چیز تباہ کئے بغیرامریکی کنٹرول میں جا سکتی ہے۔ یہ ایک نئی دنیا ہے جسے امریکہ نے کھوج نکالا اور آج اربوں ڈالر سالانہ کما رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے دنیا میں امریکہ کی برتری قائم کر رکھی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں سول کاروبار میں جی پی ایس فعال ہونے کے باوجود پاکستان کی دفاعی ٹیکنالوجی امریکہ کی نگرانی اور کنٹرول سے بڑی حد تک آزاد ہے۔ جی پی ایس کو چیلنج کرنے اور امریکی کنٹرول سے خود کو آزاد رکھنے کے لئے کچھ بڑے ممالک نے ایسا ہی نظام تیار کر لیا ہے۔ روس نے گلوناس(Glonass)یورپی یونین نے گلیلیو سسٹم اور چین نے بیڈو(Beidou) نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم BDSتیار کر لیا ہے۔ بھارت بھی ایسا نظام تیار کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ چین نے 269ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے گلیلیو سسٹم میں شراکت داری کی۔ پھر کچھ عرصہ بعد شکائت کی کہ اس شراکت داری میں اس کا کردار تسلی بخش نہیں۔ چین نے اس یورپی نیویگیشن سسٹم میں داخل ہو کر اس تک رسائی حاصل کی اور پھر چند برس بعد یورپ کے گلیلیو سسٹم کے مقابلے میں اپنا نظام لانے کا اعلان کر دیا۔ چین نے اس قدر تیزی کے ساتھ یہ کام کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ چین جان گیا کہ آج جس قوم کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہے وہ دنیا کی طاقتور ترین قوم بن سکتی ہے۔ BDSتیار کرنے کا فوری فائدہ یہ ہوا کہ چین امریکہ کا محتاج نہ رہا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب چین امریکہ کی مدد کے بغیر دنیا میں کسی بھی جگہ فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ جی پی ایس کے مقابلے میں بننے والے دوسرے نیویگیشن نظام امریکہ کے تجارتی حریف بنے مگر ان میں سے اکثر امریکہ کی دفاعی طاقت کو چیلنج نہ کر سکے۔ امریکہ جی پی ایس والے ہتھیار اور نیویگیشن کو غیر فعال کر کے کسی ملک کی فوجی نقل و حرکت کو عین دوران جنگ روک دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا کے پاس بیڈو شکل میں متبادل نظام آ گیا ہے۔ امریکہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے اب دنیا کو بلیک میل نہیں کر سکتا۔ ٹریکنگ کمپنیاں جی پی ایس استعمال کرتے ہوئے کسی کھوئی ہوئی چیز کی دس میٹر کے دائرے میں موجودگی بتا سکتی ہیں۔ بیڈو سسٹم ایک فٹ کے دائرے میں چیز کی نشاندہی کر کے زیادہ درست ثابت ہو رہا ہے۔ بیڈو سسٹم کی مدد سے چین اس قابل ہو گیا ہے کہ وہ کسی دوسرے پر انحصار کئے بغیر اپنے سول و فوجی طیاروں اور سامان کے جہاز چلا سکے۔ چینی فوج اس نظام کی مدد سے اپنے بحری جہازوں کو ہدایات بھیج سکتی ہے۔ دشمن طیاروں کو پسپا کر سکتی ہے۔ ڈرون طیاروں اور جنگ میں مصروف افواج کو پیغام بھیج سکتی ہے۔ دفاعی طاقت کے علاوہ بیڈو سسٹم نے چین کی معیشت کو بھی نیا ابھار دیا ہے۔ چین جلد ہی اس ٹیکنالوجی سے سالانہ 61.54 ارب ڈالر کمانے والا ملک بن جائے گا۔ جبکہ چینی حکومت اس پر 25ارب ڈالر خرچ کر رہی ہے۔چین کے سائنسدان اور درویش مل گئے ہیں۔ بھارت نے حالیہ سائنس کانفرنس میں مذہبی گروپوں اور محققین کو جمع کیا۔ کئی عجیب و غریب اور مضحکہ خیز باتیں بھی ہوئیں مگر یاد رہے بھارت مضحکہ خیز باتوں کے باوجود مریخ پر مشن روانہ کر چکا ہے۔ اب ہماری باری ہے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ کیا ہم نے دو آنکھوں سے دیکھنے پر اکتفا کرنا ہے یا لاکھوں آنکھوں کو بیدار کر کے کائناتی سچائیاں تلاش کرنا ہیں۔