روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمشن نے پنجاب میں 12مئی کے بعد ہونے والے تبادلوں بارے حکومت سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ پر اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف پوری شدت سے یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ مسلم لیگ ن ہمیشہ پنجاب کی بیورو کریسی کے ذریعے الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے۔2013ء کے جنرل انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور 35پنکچر کا واویلا کیا جاتا رہا اور معاملہ 126دن کے طویل ترین دھرنے تک پہنچ گیا۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی 2013ء کے انتخابات کو آر او کے الیکشن قرار دیتے رہے ،یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو12مئی کے بعد غیر ضروری تقرریاں اور تبادلے کرنے سے روک دیا تھا مگر بدقسمتی سے پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ کے منظور نظر افراد کو ایوان وزیر اعلیٰ سے محکمہ خزانہ ،بلدیات اور دیگر اہم اداروں میں تعینات کر دیا ہے ذرائع کے مطابق نگران حکومت اور جنرل الیکشن میں یہ محکمے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں پری پول دھاندلی کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی کے اہم افسران نے الیکشن سے قبل طویل چھٹیاں منظور کروا لی ہیں تاکہ وزیر اعلیٰ کی الیکشن مہم میں ذاتی حیثیت میں مدد کر سکیں اور یہ افسران ملک بھر کی اہم سیاسی شخصیات کی وزیر اعلیٰ سے ملاقاتوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اب الیکشن کمشن نے 12مئی کے بعد تقرریوں اور تبادلوں کا نوٹس لیا ہے تو بہتر ہو گا کہ ایسے تمام افراد جن پر انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا شائبہ ہو ان کو فوری طور پر عہدوں سے ہٹا دیا جائے تاکہ انتخاب میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے اور مستقبل میں اپوزیشن کو الیکشن کمشن کی کارکردگی پر سوال اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔