وزیراعظم شہباز شریف نے بیوروکریسی میں ضروری اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ہائی پاور کمیٹی کی سربراہی کیلئے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سر وس کے سابق سینئر بیورو کریٹ کا نام فائنل کیا جاچکا ہے۔ سابق چیف سیکرٹریزاور سابق آئی جیز کو شامل کیا جارہا ہے۔اگراس ہائی پاور کمیٹی میں تمام صوبوں کی صوبائی سروس سے افسران نہیں لیے جاتے تو کمیٹی کا آغاز ہی نا انصافی سے ہوگا کیوں کہ پریکٹیکل اصلاحات کیلئے صوبائی بیوروکریسی کے افسران کی نمائندگی ناگزیر ہے۔ہائی پاور کمیٹی بیورو کریسی کے تحفظات اور دیگر مسائل کا جائزہ اور انکے تحفظات ختم کرنے اور ریفارمز لانے سے متعلق پلاننگ بھی تشکیل دے کر آگاہ کرے گی،اس کے علاوہ کمیٹی سینئر بیوروکریٹس کی کارکردگی، اقدامات پر تجاویز دے سکتی ہے۔ ڈی جی پی آر صو بائی حکومت کا سب سے اہم محکمہ ہے جو وزارتوں اور محکموں کی کارگردگی کی مثبت تشہیر کی ذریعے گورنمنٹ کواہم سپورٹ دیتا ہے۔لیکن یہ انتہائی حوصلہ شکن امر ہے کہ ڈی جی پی آر میں سنئیر افسران کی موجودگی کے باوجود انکو سیکرٹری تو دورڈائریکٹر جنرل کی سیٹ پر بھی پوسٹنگ نہیں ملتی۔ دن رات بھاگ اور جاگ کر وزیراعلیٰ ،گورنر اور وزراء کی کوریج کروانی ہے لیکن ٹرانسپورٹ سمیت دیگر سہولیات کے سامنے سوالیہ نشان ہے ۔اسی سے ملتی جلتی صورت حال وفاقی انفارمیشن گروپ پی آئی ڈی کی ہے دن رات کام اور بس کام ،بدلے میں ناکافی سہولیات۔انصاف کا ترازواس بات کا متقاضی ہے کہ سب کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ اداروں کے درمیان کھینچا تانی اور اقتدار کی جنگ کا خاتمہ ہو اور سب ملکر وطن عزیز کی خدمت کر سکیں۔ 2019 کی بات ہے کسی شادی میں شرکت کیلئے دوسرے ضلع میں جانے کا اتفاق ہوا تو ایک بے تکلف دوست آیا اور کہنے لگا کہ اینٹی کرپشن کی کرپشن کوپکڑنے والا کوئی نہیں؟خدا کا واسطہ ہے اس ریجنل ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کوبھی واپس لاہور لے جائو اس کے ہاتھوں پٹواری سے لیکر استاد تک کوئی محفوظ نہیں۔دوسال میں کروڑ پتی ہوگیا ہوگا۔ اب ہمارے علاقے کی جان چھڑوا دو اس سے۔اس دوست نے معلوم نہیں کتنے درددل سے کہا ہوگا کہ اسی سال اپریل 2019میں مذکورہ آفیسر وہاں سے ٹرانسفر ہوگیا۔کچھ ماہ قبل بزدار حکومت کے آخری دنوں کی بات ہے کہ وہی آفیسر کسی میوچل دوست کے ساتھ ملے تو ان کو بتا رہے تھے کہ ڈی سی کے چار کروڑ دینے کی بجائے پانچ کروڑ میں ایک بہت بڑے پراجیکٹ کا ’’آل اِن آل‘‘ لگ گیا ہوں۔آج کل وہ اربوں روپے کے پراجیکٹ سے اپنے پانچ کروڑ کو ملٹی پلائی کر رہا ہے۔اسی طرح ایک ڈی سی کو تین ارب کی کرپشن کی خبروں کے بعد اوایس ڈی کیا گیا اور اگلے ماہ ڈیپارٹمنٹ ڈائریکٹر لگادیا گیا۔بزدار حکومت کے خاتمے سے ایماندار افسران نے سکھ کا سانس لیا ہے،اچھی پوسٹنگ کیلئے انکی امید جاگی ہے اور انتہائی شاداں نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کو ٹرانسفر پوسٹنگ کیلئے بیگ اٹھا کہ جگہ جگہ حاضری نہیں دینا پڑے گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز چیف سیکرٹری کامران علی افضل اور پرنسپل سیکرٹری نیبل اعوان کی مدد سے اچھی ٹیم بنارہے ہیں۔اہل اور کام کرنے والے افسران کو اہم سیٹوں پر تعنیات کیا جارہا ہے۔ بہت سارے افسران کو چیف سیکرٹری آفس اور پرنسپل سیکرٹری نبیل اعوان کی طرف سے خود کالز آئیں کہ آپ اچھے کام کرتے ہیں۔آپ کو اس یقین اور امید پر پوسٹ کر رہے ہیں کہ آپ نے کم وقت میں عوام کیلئے زیادہ سے زیادہ کام کرنا ہے۔ نہ کوئی بیگ، نہ سفارش اور پوسٹنگ مل گئی۔ اس وقت حمزہ شہباز کیلئے سب سے ضروری اور بڑا چیلنج سفارشی، کرپٹ اور نااہل افسران سے پنجاب کوپاک کرنا ہوناچاہئے کیونکہسابق حکومت میں بیگز دے کر پوسٹنگ لینے والے کبھی بھی عوام کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے ۔ شہباز شریف کو چاہئے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کرتے ہوئے ایسے کرپٹ عناصر سے مستقل چھٹکارا دلانے کیلئے بھی قانون سازی کریں۔اینٹی کرپشن کی کریڈیبلٹی پرسوالیہ نشان کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں پر محکمہ کے اپنے افسران ترقی سے محروم ہیں جبکہ پی ایم ایس اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے گریڈ سترہ کے آفیسر کو گریڈ اٹھارہ کے برابر ڈپٹی ڈائریکٹر لگا دیا جاتا ہے جبکہ گریڈ اٹھارہ کے پی اے ایس اور پی ایم ایس افسران ڈویژنل ڈائریکٹر لگائے جاتے ہیں۔گریڈ اٹھارہ کا آفیسر گریڈ انیس کی ڈی سی ،ڈی پی او یا گریڈ بیس کے کمشنر اور آر پی او کے خلاف حقائق پر مبنی شکایت بھی درج کرنے کی جرات کیسے کرسکتا ہے؟ کیونکہ کل کو انہی سینئر افسران کے ماتحت اسے کام کرنا ہے۔اسی طرح ایف آئی اے میں جابجا پی ایس پی افسران کی اجارہ داری ہے۔ اگروزیر اعظم واقعی کرپشن اور سفارشی کلچر کا خاتمہ کرنا اور میرٹ پر کام لینا چاہتے ہیں توگریڈ 20سے کم کسی بھی آفیسر کو اینٹی کرپشن یا ایف آئی اے میں پوسٹنگ نہ دی جائے۔احتساب کرنے والے اداروں اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے تاکہ وطن عزیز سے کرپشن کا ناسور ختم کیا جاسکے۔ اگرچہ کرپٹ اوراختیارات سے تجاوز کرنے والے افسران کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس اقلیت نے فرض شناس اکثریت کا امیج بھی دائو پر لگا دیا ہے۔بیوروکریٹس کی ایک طویل فہرست ہے جو نہ صرف فرش شناسی اور دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں بلکہ اتوار ،عیدین اور دیگرتعطیلات میں بھی انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے نظر آتے ہیںاور عام افراد کی خوشی غمی میں شرکت کرتے ہیں۔بدقسمتی سے ماضی میں نیب کی انتقامی کاروائیوں کی وجہ سے بیوروکریسی شدید خوف وہراس کا شکار رہی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح قانون سازی کی جائے کہ کام کرنے والے افسران کو عوامی فلاح وبہبود کے کاموں کی تکمیل کیلئے نہ صرف ’’فری ہینڈ ‘‘ دیا جائے بلکہ عزت و احترام اور تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ بلاوجہ انتقامی احتساب کا شکار نہ ہوسکیں۔