ہمارا آئین بھی کسی کمزور نظریہ کی کتاب معلوم ہوتا ہے۔ ہر ایک کے لیے اس میں راستہ ہے۔ہر ایک کی خوشی کا سامان، ہر ایک کی تسلی کی شق موجود ہے۔جیسے آجکل ہر کسی کو اپنی مرضی کا فتوی سستے داموں مل جاتا ہے ، ایسے ہی اپنی مرضی کا آئینی راستہ کوئی بھی وکیل آپ کو پانچ منٹ میں ڈھونڈ دے گا۔ آئینی ماہرین پچھلے تین دن سے آئین و قانون کی روشنی میں ہمیں بتا رہے ہیں کہ جاری اجلاس کے اوپر دوسرا اجلاس نہیں بلایا جا سکتا، آئینی ماہرین اسی آئین میں سے دوسری شق نکال لاتے ہیں کہ اجلاس تو بلایا جا سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کے خیال میں جب مقررہ وقت پہ وزیر اعلی نے اجلاس بلا کر اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تو آئین کی روشنی میں وہ وزیر اعلی نہیں رہے ، جبکہ دیگر ماہرین کی رائے ہے کہ جب اجلاس ہوا ہی نہیں تو آئین کی متعلقہ شق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کچھ قانونی ماہرین زور دے کر کہہ رہے ہیں کہ آئین و قانون کی روشنی میں پرویز الٰہی وزیر اعلی نہیں رہے ، جبکہ دیگر کی رائے میں وہ اب بھی وزیر اعلی ہیں۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ گورنر وزیر اعلی کو ڈی نوٹیفائی کر سکتا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں ہرگز نہیں کر سکتا۔ ہمارا آئین بہت اچھا ہے، اس میں سب کی خوشی کا سامان موجود ہے۔کئی شقیں تو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ دوسری شقوں سے ٹکرا جاتی ہیں اور کسی کو برا بھی نہیں لگتا۔ آئین کی ایک شق224 کہتی ہے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے 90 دن میں نئے انتخابات ہونا لازم ہیں ۔ آئین کی ایک دوسری شق 254 کہتی ہے کہ اگر کسی وجہ سے مقررہ مدت کے اندر کوئی کام سر انجام نہیں دیا جاتا تو بھی وہ غیر قانونی نہیں ہو گا۔ شاید اسی وجہ سے اسے متفقہ آئین کہتے ہیں کہ اس میں کسی کو انکار نہیں کیا گیا ، جس جس نے جو جو تجویز پیش کی ،سبھی کو نہایت کشادہ دلی کے ساتھ آئین کا حصہ بنا دیا گیا ۔ اب آرٹیکل چھ ہی کو دیکھئے، روز کسی نہ کسی کو پھانسی پہ لٹکاتا دکھائی دیتا ہے لیکن آج تک کسی پہ لاگو ہی نہیںہوا۔ اب فواد چودھری کے بقول یہ گورنر پنجاب پہ لاگو ہوا چاہتا ہے کیوں کہ انہوں نے آئین کو توڑا۔ویسے تو اگر کوئی چاہے تو یہ ٹریفک کا اشارہ توڑنے والے پہ بھی لاگو ہو سکتا ہے مگر اس کی مہربانی کہ یہ اب تک Restrain کا مظاہرہ ہی کرتا رہا ہے۔ نہ جانے کون کون اب تک آئین کو کیسے کیسے توڑ چکا ہے لیکن پھانسی پہ نہیں چڑھا۔ کئی طرح کی تشریحات اسی آئین کی روشنی میں ہو رہی ہیں ۔ صدر گورنر کو ہٹا سکتے ہیں ، نہیں ہٹا سکتے ہیں ۔گورنر ایمر جنسی لگا سکتے ہیں ، نہیں لگا سکتے ہیں۔وفاقی حکومت پنجاب میں گورنر راج لگا سکتی ہے، نہیں لگا سکتی ہے۔گورنر وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہہ سکتا ہے، ان حالات میں نہیں کہہ سکتا۔گورنر کے پاس فلاں اختیار ہے، گورنر کے پاس اختیار نہیں ہے۔ آپ اپنی مرضی کی سٹیٹمنٹ قانونی ماہرین سے لے سکتے ہیں ،بس قانونی ماہر کو پتہ ہونا چاہیے آپ کی منشاء کیا ہے۔ ایک طرح سے تو اسمبلی ٹوٹ ہی چکی ہے۔ جب اسمبلی کا نظام چلانے والے ہی کام جاری رکھنے پہ آمادہ نہ ہوں تو زبردستی کون چلا سکتا ہے۔ جانے والے کو بھلا روک سکا ہے کوئی؟ اب زبردستی پنجا ب اسمبلی کو وینٹی لیٹر پر رکھ کے مصنوعی سانس دیتے رہیں تو دیتے رہیں ، یہ زندگی کسی کے کام کی نہیں ۔پہلی بار ہورہا ہے کہ حکومت اسمبلی توڑنا چاہتی ہے اور اپوزیشن اسے بچانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے۔ سب اپنی اپنی آئینی تشریحات لیے جیت ہار کی فکر میں ہیں ،کسی کو یہ فکر نہیں کہ ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے۔معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے، کاروبار بند پڑا ہے۔ سٹاک مارکیٹ برباد ہو گئی ہے۔ ٹماٹر پیاز خریدنے کے پیسے نہیں ۔ملک ایک قدم آگے نہیں بڑھ پا رہا ، ڈیفالٹ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور بڑے بڑے ارسطو ہمیں سمجھا رہے ہیں کہ پرویز الٰہی وزیر اعلی رہے کہ نہیں رہے۔ عطا تارڑ نے رات دو بجے گورنر ہائوس کے باہر کھڑے ہو کرایک گھنٹے کی طویل تقریر کرتے ہوئے قوم کو سمجھایا گورنر کے پاس اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت وزیر اعلی کو ڈی نوٹیفائی کر سکتے ہیں ۔ جیسے قوم کوکھانے کے لیے آٹا،چاول ، دال نہیں بس یہی چاہیے کہ گورنر کا کیا اختیار ہے اور وزیر اعلی کا کیا۔ تاریخ پاکستان کی تباہی کا حال بیان کرتے ہوئے یہی لکھے گی کہ جب ملک ڈیفالٹ کر رہا تھا تو قوم کے دانشور تضادات سے بھرپورآئین کی تشریح میں لگے تھے۔ کوئی ان دانشوروں کو سمجھائے کہ اگر سارے اختیارات گورنر کو سونپ دیے جائیں ، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو جائے،نتیجہ کچھ بھی نکلے تو بھی اس سے ملک کا معاشی بحران ختم نہیں ہونے والا،ملک ایسے نہیں چلے گا جیسے ضد سے چلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کسی نہ کسی کو تو بیٹھ کے راستہ ڈھونڈنا ہی پڑے گا ۔ کوئی نہ کوئی تو بتائے گا کہ حل کیا ہے۔گذشتہ روز میں 92 نیوز کا مائیک لے کے راولپنڈی کے راجہ بازار چلا گیا ۔ ایک بھی شخص مجھے نہیں ملا جسے وزیر اعلی یا گورنر کے آئینی اختیارات کی بحث سے غرض ہو۔ روزی کے ویران اڈے پہ کھڑے کسی شخص کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ کون آئین کی کس شق کو پامال کر رہا ہے رہا اور آئین کسے کیا اجازت دیتا ہے۔ یہ بحث اقتدار کے کھیل میں اترے کھلاڑیوں کی جیت ہار کا فیصلہ کرنے کے لیے ہے، یہ بحث بھوک سے لڑتے ،تباہ ہوتے کاروبار کا شکار ،غصے سے بھرے عوام کے لیے نہیں ہے۔ ایک آئین عوام کے لیے بھی بنائیے،موجودہ آئین صرف ایوان اقتدار کی راہداریوں میں چلنے والوں کے تحفظ کے لیے رہ گیااور یہ آئین موم کی ناک ہے، جسے نظریہ ضرورت کی تکمیل کے لیے رکھ لیا گیا ہے۔ایک آئین عوامی ضروریات کی تکمیل کے لیے بھی بنا دیجے۔