گھٹا تو کھل کے برسی تھی مگر موسم نہ بدلا تھا یہ ایسا راز تھا جس پر مری آنکھوں کا پردا تھا مرے دامن کے صحرا میں کئی جھیلوں کا قصد تھا جو بادل کی زبانی میں ہوائوں کو سناتا تھا پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔پردہ اٹھنے یا پردہ گرنے کی منتظر ہے، نگاہ اور وہ بھی تو چلمن سے لگے بیٹھے ہیں۔ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ بس آپ فیض صاحب کونظم نورجہاں کی آواز میں سنا کریں کہ میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے ،حیات تیری آنھکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے۔ تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے یہ نہ سوچا تھا فقط چاہا تھا یوں ہو جائے کہئے یہ خوش سماعتی شیخ رشید کی باتیں سننے سے کتنے درجہ بہتر ہے۔ مجھے پہلی مرتبہ بلاول میں زبردست میچورٹی اور سنجیدگی نظر آئی کہ انہوں نے کہہ دیا کہ جہاں شیخ رشید موجود ہو گا وہ اس محفل میں شریک نہیں ہونگے۔ یہ ایک نوجوان کا ردعمل ہے جس میں مجھے بانکپن نظر آیا کہ بدتمیزی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔یہ صورت حال انتہائی الارمنگ ہے۔ اب کوئی اسے پورس کا ہاتھی کہہ رہا ہے تو کوئی کچھ۔یہ عزت بہت عجیب شے ہے۔ یہ عزت والی بات میں کسی اور کے لئے کرنے جا رہا ہوں۔ مجھے کسی بہت خوبصورت ہستی نے کہا کہ بعض اوقات آپ بہت عزت دار ‘ایماندار اور رول ماڈل ہوتے ہوئے مستعار کا عہدہ آپ کو بے وقار کر دیتا ہے۔ لوگوں کا بھرم اور اعتماد ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور خود کو کوستے ہیں۔ تبھی تو شاعر کہتا ہے! یہ بھی رکھا تھا دھیان میں ہم نے وہ اچانک اگر بدل جائے نواز شریف کی تقریر کے بعد بہت دھول اڑی ہے اور کس کس کے سر پر خاک پڑی ہے: بے اعتدالیوں میں سبک سر ہیں ہم ہوئے جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے اس شور شرابے اور افراتفری پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میرا دھیان تو کسی اور طرف جاتا ہے وہی کہ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے اور ادھر تو حسن بھی دلکش نہیں رہا بلکہ کراہت آنے لگتی ہے۔ یہ کراہت بدبودار ہو جاتی ہے۔ جب آپ کے قول اور فعل میں کھلا تضاد پوری دنیا کو نظر آ رہا ہے۔آپ کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی آپ کو ٹکے کا نہیں رہنے دیتی۔ ویسے بھی عوام نے اس جھگڑے سے کیا لینا ہے ان پر تو دائرہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ واقعتاً کوئی ایجنڈا ہے جسے پورا کرنا لازم ہے کہ لوگوں کو جیتے جی مار دیا جائے اور پھر آئے روز زخموں پر نمک پاشی آپ نے گھبرانا نہیں۔ ان تسلیوں کا مذاق بند کریں۔ کتنی شرمناک بات ہے کہ چار سو فیصد کے اضافے کے بعد بھی اب 94دوائوں کی قیمت میں 262فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے اوپر سے عذرلنگ اضافہ اس لیے کیا کہ یہ دوائوں کی دستیابی ممکن بنانے کے لئے ضروری تھا۔ اب اس پر شہباز شریف اگر تنقید کرتا ہے ۔ یہ سراسر نالائقی ہے۔ اب لوگ آٹے اور چینی کو بھول جائیں گے۔اللہ کسی کو بیمار نہ کرے اب یہی سب سے بڑی دعا ہے۔ بعض باتوں پر تو بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے اور یہ ہنسی دیر تک نہیں رکتی بزدار صاحب فرما رہے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم دہلیز تک پہنچانے کا خواب پورا کریں گے۔یعنی یہ خواب ہی پورا ہو گا۔تعبیر کو گولی ماریں۔ پھر آپ تعلیم تو پہنچنے کی کوشش نہ کریں کہ بے سود ہو گی کنواں ہی چل کر پیاسے کے پاس آئے گا۔ یہ ان کا کمال ہو گا کہ آپ کو زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی تعلیم آپ کی دہلیز پر آ جائے گی۔ علاوہ ازیں وہ فرما رہے ہیں کہ ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔ میرا خیال ہے انہوں نے ہر تحصیل کہا ہو گا۔ رپورٹ غلط ہوا۔ صرف کراچی ہی نہیں پنجاب کو بھی اسی طرح کے پیکیج دئیے جا رہے ہیں۔دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے آر کیا تھی یہ بھی کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک بھائی پی ٹی آئی میں دوسرا ن لیگ میں مگر وابستیاں کہیں اور۔ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔لیکن نثار ہونے کے لئے بھی سب تیار بیٹھے ہیں۔ آج خدا کی قسم ان کے وژن اور سوچ پر رونا آتا ہے اس سوال پر کہ کیا سب کچھ فوج کنٹرول کر رہی ہے شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ہاں یہ مان لینا چاہیے کہ سب کچھ فوج کو ہی کرنا پڑ رہا ہے جمہوریت کو بھی وہی کنٹرول کریں گے اس کے بعد گندے نالے صاف کرنے تک انہوں نے سارے کام گنوائے۔ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں نہ ہو۔پھر وہ کہتے ہیں وہ روز ایک لیڈر کو ایکس پوز کریں گے حتیٰ کہ سکیورٹی کی باتیں بیچ بازار آ گئی ہیں۔شیخ صاحب جو تعفن پھیلا رہے ہیں حساس لوگوں کا دم گھٹنے لگا ہے سوال کے جواب میں شیخ صاحب کا کہنا کہ سر نے خاں صاحب کو نہیں بلایا ہو گا کس قدر شرمناک ہے: بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے اس وقت آدھا تیتر آدھا بٹیر نظر آ رہا ہے کسی ضابطے میں تو زلفوں کو لائو نہ الجھا رہے ہو نہ سلجھا رہے ہو۔ وسیع تر مفاد کو ایک عرصہ ہو چکا ہے، لگتا ہے لوگ بھی منتظر ہیں بگلے کے سر پرموم رکھ کر دھوپ کا انتظار نہ کیا جائے کہ موم اس کی آنکھوں آئے تو وہ اندھا ہو جائے۔ آپ اسے ویسے ہی دبوچ لیں۔ اکتاہٹ میں بعض اوقات خوف بھی ختم ہو جاتا ہے۔آخری بات جو زیادہ خوفناک ہے وہ پنجاب کی احساس محرومی ہے آپ مانیں یا نہ مانیں مگر ان کی توہین ہو رہی ہے۔ لاوا پک رہا ہے ملک کی بقا ازبس ضروری ہے۔ ظاہر وہ فوج ہی کے دم قدم سے ہے وہ جو پوسٹیں لگا رہے ہیں کہ ووٹ نہیں فوج کو عزت دو۔ دو دھاری تلوار سے وار کر رہے ہیں۔ فوج اور عوام کا رابطہ بہت لازم ہے درمیان میں پیار اور احترام لازم ہے۔ خدا کے لئے عوام کو ایسے بے اعتنائی سے نہ مہنگائی کی چکی میں نہ پسا جائے ایک شعر کے ساتھ اجازت: عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے