سیانے کہتے ہیں، میاں بیوی گھر کی گاڑی کے دو پہئے ہوتے ہیں۔ ہمارے گھر کی گاڑی کے دونوں پہئے سرکار دربار کی ملازمت میں ہیں لہذا ہفتے بھر کا سبزی گوشت چھٹی والے دن اکٹھا خرید لاتے ہیں۔ اس مہم میں میرا کام فقط ڈرائیور کا ہوتا ہے۔ دکان سے اشیا خریدنا بیگم کی ذمہ داری ہے۔ گلگشت کالونی میں ایک جگہ ہے جہاں سبزی اور چکن کی پانچ سات بڑی بڑی دکانیں پہلو بہ پہلو آراستہ ہیں۔ یہ کوئی باقاعدہ دکانیں نہیں۔ ایک پارک کی دیوار ہے جس کے ساتھ ساتھ پنجرے اور پھٹے لگے ہیں۔ ساری کی ساری دکان داری سڑک پر ہوتی ہے۔ یہ سب گویا بلدیاتی اداروں کے "کرایہ دار" ہیں۔ خیر، اب کے اتوار اس ہفتہ وار خریداری کے لئے پہنچے تو بیگم نے کہا گرمی بہت ہے، جب تک میں سبزی لیتی ہوں، آپ دو چکن تْلوا کر صاف سا گوشت بنوا لیں۔ مجھے دو جگہ کھڑا نہیں ہونا پڑے گا۔ میں ایک ایسی پولٹری شاپ پر گیا جس کا نام ایک مشہور مذہبی جماعت کے سربراہ کے لقب پر ہے۔ گلّے کے کاؤنٹر پر تیس بتیس برس کا باریش جوان بیٹھا تھا۔ سر پر پگڑی، کھلی آستینوں اور بغیر کالر کا سفید کرتہ اور سفید ہی پاجامہ۔ گویا پورے کا پورا شرعی حلیہ۔ اس کے کاریگروں کے لباس تو سپید نہ تھے البتہ سر پر جالی دار ٹوپیاں موجود تھیں۔ میں نے اس کے پہلے پنجرے سے دو نسبتاً کم وزن مرغیاں پسند کیں کہ زیادہ وزن والی چربیلی ہوتی ہیں۔ مذکورہ پنجرے سے اس پھٹے تک کا فاصلہ، جہاں تولنے والا الیکٹرانک کانٹا اور دیگر ساز و سامان پڑا تھا، قریب دس قدم کا تھا۔ ٹوپی سے ڈھکے سر والے نوجوان نے پنجرے میں ہاتھ ڈال کے میری مطلوبہ مرغیاں ناپیں اور پھر بجلی کی سی تیزی سے کاؤنٹر کے اندر سے کانٹے تک پہنچا۔ مرغیاں سٹیل کے بڑے سے پیالے میں پٹخیں۔ قبل اس کے کہ میں کانٹے تک پہنچتا، اس نے مرغیاں اٹھا کر پیچھے کھڑے لڑکوں کو پکڑا دیں جو ذبح پر مامور تھے۔ تولنے والا نوجوان بلند آواز میں مجھ سے مخاطب ہوا "آٹھ سو کی ہیں سر"۔ میں نے دکان کی پیشانی پر لٹکتی پلیٹ پر نرخ دیکھا۔ زندہ کا ایک سو تیس، گوشت کا ایک سو پچاس اور بغیر پوٹہ کلیجی کے ایک سو ساٹھ لکھا تھا۔ اتنی دیر میں پیچھے والے لڑکے مرغیاں ذبح کر چکے تھے۔ میں نے تھوڑا احتجاج کیا کہ بھئی یہ تولنے والے کانٹے پر گاہک کی طرف وزن اور رقم بتانے والی سکرین اسی لئی لگائی جاتی ہے کہ اسے اپنی خریداری کے وزن اور مالیت کا علم ہوجائے۔ تم نے مجھے دیکھنے ہی نہیں دیا۔ اب میں نے پوچھا "کتنا وزن تھا" تو اس نے یونہی کیلکولیٹر پر انگلیاں چلائیں اور اٹکل پچو کہ دیا "پانچ کلو دو سو گرام"۔ اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ گاہک پرانے زمانے کا ہے جس نے پرائمری میں وزیر شمسی مرحوم کے ڈنڈے کھا کھا کے پہاڑے یاد کئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا "تیرہ پنجے پینسٹھ یعنی چھ سو پچاس اور دو سو گرام کے ہوئے، تیرہ دونے چھبیس روپے۔ آٹھ سو کیونکر ہوگئے؟؟" اب اس سے کوئی بات نہ بن پڑی۔ کہنے لگا "صاحب یہ نرخ درست نہیں ایک سو پینتیس روپے فی کلو ہے"۔ عرض کیا "تب بھی آٹھ سو نہیں بنتے"۔ اس کی وضع قطع اور انا بددیانتی تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوتی تھی۔ بالآخر کاؤنٹر پر بیٹھا دستار پوش گفتگو میں داخل ہو۔ "بھئی صاحب کی تسلی نہیں ہورہی، ان کو نئی مرغیاں تول دو" میں نے کہا "ایسی بات نہیں، ایک تو تولتے ہوئے مجھے دکھانا چاہئے تھا، دوسرے آپ اب مجھے وزن بھی نہیں بتا رہے۔" پھر میں نے کہا "چلو اب ذبح کر ہی دی ہیں تو گوشت تول لیں گے۔ بغیر پوٹہ کلیجی تولنا ایک سو ساٹھ والے نرخ سے" دکان دار راضی ہوگیا۔ ساتھ ہی چپکے سے اس کے لڑکوں نے دو عدد بھاری سی مرغیاں ذبح کر کے اس الٹے بھونپو میں ڈال دیں جہاں شہ رگ بریدہ مرغیاں جاں، جان آفریں کے سپرد کرنے کو تڑپا کرتی ہیں۔ اب میرے والی مرغیاں چونکہ پہلے ذبح ہوئی تھیں سو وہ نکال کر پیچھے والے پھٹے پر رکھی ہیں مگر ان کو چھیلا نہیں جارہا۔ گزارش کی کہ "بھیا، اب کاہے کا انتظار ہے؟" بتایا گیا "یہ آپ کی نہیں ہیں، آپ کی تو ذبح کے بعد ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئیں" دائیں بائیں دیکھا کوئی گاہک نہ تھا، اک میں ہی فقط اس اسلامی بھائی کی الفت میں رسوا کھڑا تھا، اور پھر جھگڑا تو یہی تھا کہ ایسی عجلت کیوں دکھائی ذبح میں۔ اب فرمایا جارہا ہے کہ یہ آپ کی نہیں ہیں۔ عرض کیا "بھائی، تاخیر ہوتی ہے، مجھے تو یہی دے دو، میرے والی کسی اور کو دے دینا"۔ اس نے مہربانی کی اور میری ہی پسند کردہ مرغیاں مجھے دینے پر رضامند ہوگیا۔ اب جو تولی گئیں تو ایک سو ساٹھ کے حساب سے چھ سو ستر روپے بنے۔ جھوٹ پکڑا جانے پر اس کے چہرے پر شرمندگی کا اک ذرا سا رنگ بھی نظر نہ آیا، ندامت تو دور کی بات۔ سمجھ نہیں آتا کہ کمی کہاں ہے۔ مذہب تو خیر بہت ارفع تعلیمات رکھتا ہے، کوئی سماجی، اخلاقی سائنسدان بھی بددیانتی کی حمایت نہیں کرتا۔ روز مرہ زندگی میں کیا درست ہے کیا غلط، ہر ایک کو پتہ ہے۔ خاتم الانبیا کا فرمان ہے کہ جھوٹ بولنے سے مال تو فروخت ہوجاتا ہے مگر رزق میں برکت نہیں رہتی۔ ہمارا تاجر ہے کہ سارا دن برکت کو دھکے دے دے کر اپنی دکان سے نکالتا ہے۔ اگلے دن میں نے بیکری سے کیک رس لئے۔ وہ صاحبِ دکاں بھی پورے شرعی حلئے میں تھے۔ تین سو روپے واپس کرتے ہوئے انہوں نے بہ اہتمام تینوں نوٹ لپیٹ کر میرے ہاتھ پر رکھے۔ دوہری تہری تہہ نے مجھے مشکوک کردیا۔ وہیں کھڑے کھول کے دیکھا تو درمیان والے نوٹ کی ایک نکڑ آدھے نمبروں سمیت اڑی ہوئی تھی۔ دکان دار سے عرض کیا کیا گناہِ بے لذت کرتے ہو میاں۔ یہ نوٹ تو بغیر کسی کٹوتی کے بنک سے تبدیل ہوجائے گا۔ شرمندہ پھر بھی نہ ہوئے، البتہ نوٹ بدل دیا۔ پتہ نہیں یہ غرورِ پارسائی تھا کہ عمومی تربیت۔ میری گزارش فقط اتنی ہے کہ ہیر پھیر سے اور جھوٹ بولنے سے تو ہم باز نہیں آسکتے۔ سو بے برکتی کی شکایت نہ کیا کریں۔