یکم مئی سے مزدوروں کیلئے حکومت نے شرامک اسپیشل ٹرینوں کی سہولت تو فراہم کی لیکن ان کی تکلیف میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سہولت میں پائی جانے والی بدنظمی سے بددل اور مایوس ہوکر مزدور آج بھی سیکڑوں کلو میٹر دور اپنے گائوں پہنچنے کیلئے پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ مودی حکومت کے دوسرے دور کا پہلا سال مکمل ہوگیا۔ ایسے موقع پر حکومتیں جس طرح اپنا رپورٹ کا رڈ پیش کرتی ہیں وہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور کی مِثل ہوتا ہے۔ مودی اینڈ کمپنی اس میں طاق واقع ہوئی ہے۔ یقین نہ ہوتو مودی کے پہلے دور کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے، کہنی اور کرنی کا فرق واضح ہوجائے گا۔ کارکردگی کی جانچ کا ایک دوسرا پیمانہ نظریاتی ہوتا ہے جس میں مودی حکومت پوری طرح کامیاب ہے۔ مودی جن نظریات کے پروردہ ہیں اس کے تانے بانے فاشزم سے جاملتے ہیں اور چونکہ وہ اچھے مقرر ہونے کے ساتھ اچھے سیلزمین اور شومین بھی ہیں اس لئے ملک اور بیرون ملک کی تقریبات میں وہ اپنے اصلی ایجنڈے کو پس پشت رکھتے ہوئے وکاس پرش کے مکھوٹے کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ غیر بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ 2014ء میں جب انہوںنے لفظوں کی جادوگری سے ڈیولپمنٹ اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا مایاجال بْنا اور130 کروڑ ہندوستانیوں کا پردھان سیوک ہونے کے ناطے اچھے دنوں کا خواب دکھایا تو مسلمانوں نے بھی بی جے پی کو ووٹ دیا۔ لیکن ہوا کیا؟ وکاس وِناش میں بدل گیا اور سب کا ساتھ سب کا وکاس اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور دلتوں کیلئے ڈرائونا خواب ثابت ہوا۔ فائدہ مودی بھگتوں کا ہوا جنہیں کبھی گئورکشا کے نام پر توکبھی ’ جے شری رام ‘ کا نعرہ لگوانے پر قتل وغارتگری کی چھوٹ مل گئی۔ پہلے دور میں اقلیت مخالف بیانیہ اور اکثریتی غلبے کے زعم سے مودی بھگتوں کو جو حوصلہ ملا اس نے ہندو توا ایجنڈا نافذ کرنے کا راستہ ہموار کردیا۔ دوسرے دور کے آغاز میں پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ ، آرٹیکل 370 اور شہریت ترمیمی بلوں کی منظوری اور سپریم کورٹ کی طرف سے رام مندر کے حق میں حاصل کئے گئے فیصلے کو اسی تناظر میںدیکھنا چاہئے۔ مودی حکومت بھلے ہی ان معاملات کو اپنا کارنامہ قراردے، ہم اسے جمہوریت اور سیکولرزم کے منافی اور قومی یکجہتی اور قومی سالمیت کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ طاقت کے نشے میں چْور کسی ایک فرقہ کو نشانہ بنانا کمزوری کی علامت ہے اور آئینی وانسانی اقدار کی خلاف ورزی ہے جس کی مذمت قومی وبین الاقوامی دونوں سطحوں پر کی گئی۔ لیکن ہمارے حکام اتنی موٹی چمڑی کے مالک ہیں کہ ان پر تنقیدوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ چند سال پہلے لندن کے غیر مقیم ہندوستانیوں کی ایک تقریب میں جب کسی نے مودی سے ان کی صحت کا راز پوچھا تو ان کا جواب تھا ’’ میں روزانہ1500 گالیاں کھاتا ہوں‘‘وہ بھلے ہی اسے طرئہ امتیاز سمجھیں یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ہندوستان میں جہاں ان کے چاہنے والے ہیں وہیں انہیں ناپسند کرنے والوں کی تعداد کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔2014￿ ء کے الیکشن میں بی جے پی کو 31 فیصد اور2019ء کے الیکشن میں39 فیصد ووٹ ملے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ 61 فیصد لوگ آج بھی انہیں پسند نہیں کرتے۔ ہمیں حیرت اس پر ہوتی ہے کہ ایک ایسے وقت جب سارا عالم کووڈ۔19کے نرغے میں ہے۔ ہر طرف مہاماری اور اس سے ہونیوالی اموات کا بازار گرم ہے۔ خود ہمارا ملک جو گزشتہ ہفتے دنیا میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں دسویں نمبر پر تھا مریضوں اور مہلوکین کی بڑھتی تعداد کے چلتے ساتویں نمبر پر آگیا ہے۔ اگر جلد ہی احتیاطی اور حفاظتی اقدامات کے تحت کورونا کے پھیلائو پر قابو نہ پایا گیا تو ہم اس پائیدان پر اور اونچے چلے جائینگے۔ یہ کام حکومت سے زیادہ عوام کے کرنیکا ہے کیونکہ حکومت اس معاملے میں ناکام ہوچکی ہے۔ ایک اور مسئلہ جس میں حکومت ناکام ہوئی بھوکے پیاسے مہاجر مزدوروں کا ہے جن کا پیدل مارچ کے ذریعے نقل مکانی کا سلسلہ52 مارچ سے شروع ہوکر آج تک جاری ہے۔ یکم مئی سے حکومت کی طرف سے شروع کی جانے و الی شرامک اسپیشل ٹرینوں اور بسوں کی سہولت نے انہیں راحت تو فراہم کی لیکن ان کی تکلیف میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سہولت میں پائی جانے والی بدنظمی سے بددل اور مایوس ہوکر مزدور آج بھی سیکڑوں کلو میٹر دور اپنے گائوں پہنچنے کیلئے پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ ٹرینوں اور بسوں سے سفر کرنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ امید وبیم کے درمیان ہر روز اپنا نمبر آنے تک اسٹیشنوں اور متعینہ مقامات کا چکر لگانا ہے۔ نمبر آنے پر ان کا خود کو خوش نصیب سمجھنا واجب ہے لیکن ٹرینوں میں بیٹھنے کے بعد تکالیف اور پریشانیوں کا دوسرا دور شروع ہوتاہے کیونکہ ان میں صاف صفائی اور کھانے پینے کا کوئی نظم نہیں ہوتا اور ضروری حوائج سے فارغ ہونے کی سہولت ناقابل استعمال ہوتی ہے۔ انہیں صرف اپنے گائوں پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ اس حالت زار کی ذمہ دار انڈین ریلویز اور متعلقہ حکومتیں ہیں جو ان کی تکلیف اوران کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کا سدباب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی یکم مئی کی اشاعت کے مطابق ۹مئی سے 26 مئی تک شرامک ٹرینوں سے سفر کرنیوالے 80سے زائد مسافر بھوک ، گرمی اور ناتوانائی سے فوت ہوچکے ہیں۔ ریلوے محکمہ اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ تاویل پیش کرتا ہے کہ بیشتر مرنیوالے پہلے سے ہی مختلف بیماریوں کا شکار تھے۔ مہلوکین کے متعلقین اس سے انکار کرتے ہیں۔ اگر مہلوکین میں سڑک حادثوں میں اور ریل کی پٹریوں پر ہلاک ہونیوالوں کو شامل کیاجائے تو یہ تعداد سیکڑوں میں پہنچے گی۔ گزشتہ ہفتے مظفر پور اسٹیشن پر جو روح فرسا منظر دیکھنے کو ملا وہ بھلائے نہیں بھولتا ہے۔ پلیٹ فارم پرایک خاتون کی لاش پڑی ہے۔ اس کا دوسالہ بچہ اس کی موت سے بے خبر لاش پر پڑی چادر اٹھاکر اسے جگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ناکام ہوکر وہ دوسری طرف چل دیتا ہے۔ ایک باپ اپنے بچے کیلئے دودھ کی تلاش میں پوری ٹرین کھنگال ڈالتا ہے۔ دودھ نہیں ملتا اور بچے کی موت ہوجاتی ہے۔ ایسے نہ جانے کتنی کہانیاں ہوں گی کتنے مناظر ہوں گے جنہیں دیکھ کر سن کر دل دہل اٹھتا ہے لیکن ہمارے حکام اور افسروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستان کو بنانے میں ان مزدوروں کا خون پسینہ اور آنسو بھی شامل ہیں(بشکریہ انقلاب بھارت )