صرف دو ماہ قبل اس ملک میں ایک ایسی حکومت تھی جس کے خلاف سیاسی کیا غیر سیاسی لوگ بھی دھرنا دے دیتے ہر دھرنا گروپ لاہور سے یوں چل کر اسلام آباد آتا جیسے محمود غزنوی ہندوستان جایا کرتا۔ بالشت بھر قائدین مٹھی بھر لوگ لے کر سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرکے اسلام آباد پہنچ جاتے اور حکومت بے بسی سے تماشا دیکھتی۔ دھرنا شروع ہوتا تو ملک کے تمام نجی ٹی وی چینلز اس کے لئے وقف ہوجاتے۔ گھنٹوں طویل تقاریر بھی دکھائی جاتیں، دھرنا قائدین کے خصوصی انٹرویوز بھی چلائے جاتے۔ شرکائے دھرنا کے تاثرات الگ پیش کئے جاتے، دھرنے میں شریک خواتین سے ان کے میک اپ کی تفصیلات بھی پوچھ کر بیان کی جاتیں۔ دھرنے کے شرکا نے صبح کے ناشتے میں کیا کھایا ؟، لنچ میں ان کے لئے کہاں سے کیا کیا ڈشز آئیں ؟ اور ڈنر میں وہ کیا کھائیں گے اس کی تفصیلات بھی ’’آزادی اظہار‘‘ کا ثبوت بن کر نشر ہوتیں۔ لے دے کر ایک دھرنے کے خلاف ایکشن ہوا تو اس ایکشن کی تو لائیو منظر کشی ہی نہیں بلکہ کمنٹری بھی چلی۔ یہی نہیں بلکہ حکومت اور سیاسی قائدین کے لئے اہل دھرنا کی جانب سے جو گالیاں، نازیبا الفاظ اور دھمکیاں استعمال ہوئیں وہ بھی پوری طرح نشر ہوئیں۔ وہ حکومت گئی اور نگرانوں کے نام پر ریٹائرڈ ججز اور اساتذہ کی حکومت آگئی۔ وہی ججز جو اپنے کیریئر کے دوران بنیادی انسانی حقوق کے سب سے بڑے علمبردار رہے تھے۔ وہی اساتذہ جو فلسفے اور عمرانی صحیفوں کے مقدس صفحات کے حوالے دے دے کر بتایا کرتے تھے کہ ’’احتجاج کا حق کسی صورت نہیں چھینا جاسکتا‘‘ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ کنٹینر لگا کر راستے بند کرنے کی جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں۔ مگر شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روز انہیں بھی وہ قلم پکڑا دیا جائے گا جو کنٹینروں کے احکامات جاری کرنے کے کام آتا ہے۔ نواز شریف نے واپسی کا اعلان کردیا۔ رضاکارانہ جلا وطنی پر وہ آمادہ نہیں ہو رہا تھا، ملک سے نکلنے پر پابندی کا قانون تو ہے لیکن ملک میں داخلے سے روکنے والی کسی ’’انٹری کنٹرول لسٹ‘‘ کا قانون میں کوئی وجود نہیں۔ ایسے میں نواز شریف کو آنے سے روکنے کی ایک ہی ممکنہ صورت نظر آتی تھی، سو فوری طور پر انہیں اور ان کی صاحبزادی کو قید اور بھاری جرمانے کی سزائیں سنا کر راستہ روکنے کی کوشش کر لی گئی۔ لوگوں کو سزا سنائے جانے پر ان باپ بیٹی کے نہ آنے کا اسقدر یقین تھا کہ مخالفین نے بھی کہہ دیا، وہ نہیں آئے گا۔ نواز شریف سزا سنائے جانے کے چھٹے روز بیٹی سمیت لندن سے ابو ظہبی کے لئے روانہ ہوا تو انہیں مخالفین نے کہا، وہ ابوظہبی میں غیر معینہ مدت کے لئے رک جائے گا، لاہور نہیں آئے گا۔ بعض نے کہا، قطر چلا جائے گا۔ نواز شریف انہیں اپنے ہی ضمیر کے سامنے شرمسار کرتے ہوئے شیڈول کے عین مطابق ابوظہبی سے وطن کے لئے روانہ ہوا تو لاہور چار ہزار کنٹینرز لگا کر بند کیا جاچکا تھا۔ پنجاب کے ہر شہر میں مارشل لاء دور کی طرح پکڑ دھکڑ چل رہی تھی، موبائل فون کی سروسز معطل تھیں۔ نہ نون لیگی قائدین کی تقاریر دکھانے کی اجازت تھی، نہ ہی ریلی کے شرکاء کے تاثرات دکھانے کی گنجائش اور نہ ہی یہ بتایا جا سکا کہ ریلی کے شرکا نے لنچ اور ڈنر کس چیز کا فرمایا ؟ فلسفہ گیا بھاڑ میں اور عمرانیات گئی تیل لینے۔ رہ گئی ’’آزادی اظہار‘‘ تو اس کے لئے تلاش گمشدہ کا شتہار دیدیا گیا ہے، مل گیا تو خبر دیدی جائے گی کہ کس حال میں ہے۔ نواز شریف جیل میں ہے ۔ شہباز شریف اور اس کے رفقاء پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کردیے گئے ہیں۔ سوال بس یہ ہے کہ اس ملک میں کبھی قانون اتنا طاقتور کیسے ہوجاتا ہے کہ نگران حکومت جیسی مینڈیٹ سے محروم گورنمنٹ میں بھی اتنی قوت آجاتی ہے جتنی قوت لاہور میں 13 جولائی کو دیکھی گئی۔ اور کبھی اتنی کمزور کیسے ہوجاتی ہے کہ عوامی مینڈیٹ والی حکومت بے بس ہوتی ہے۔ شاید آنے والا وقت ہی ان سوالات کے جوابات بہتر طور پر دے سکے گا کیونکہ آثار یہ بتاتے ہیں کہ جو لندن سے چلا اور اڈیالہ گیا، وہ پیر مغاں کے پر تاثیر دارو کا راز پا کر ہی چھوڑے گا۔ الیکشن والے روز بھی وہی ہوا جو پری پول رگنگ کی صورت ہوا تو یہ طے سمجھئے کہ بہت جلد اسلام آباد اور پنجاب کی سڑکوں کا کنٹرول اڈیالہ جیل منتقل ہوجائے گا۔ تب ہر دوسرے دن سڑک پر آنے کی دھمکیاں دینے والوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ جب کٹھ پتلی کی جگہ کوئی عوامی قوت سڑک پر آتی ہے تو نتائج کیا ہوتے ہیں ؟ اس بار سڑک کا کنٹرول کسی ایسے لیڈر کے پاس نہ ہوگا جو دن کو کنٹینر پر پتلی تماشا دکھاتا ہو اور رات کو تین سو بیس کنال کے محل میں جا سوتا ہو۔ بلکہ یہ ایک ایسے لیڈر کے پاس ہوگا جو جیل کے فرش پر لیٹا ہوگا، جس کی بیٹی عام خواتین قیدیوں کی بیرکس میں رہ کر مثال قائم کر رہی ہوگی۔ ایسے لیڈر کے حکم پر عوام کا رد عمل اونچی فصیلوں کے پیچھے رہنے والوں کی نیندیں حرام کرسکتا ہے۔