بے جی چھوٹی سی لکڑی کی ٹرے میں کھانا پروستیں۔ٹرے پر بڑے اہتمام اور چاؤ سے ایک طرف دو چپاتیاں اور ایک طرف سالن گھر میں جو دال ساگ پکا ہوتا خود لے کر چارپائی پر رکھتیں۔ان کی یہ عادت والد کے انتقال تک قائم رہی۔کسی ملازم کسی بیٹی یا میری بیگم کو جرات نہ ہوتی کہ والد کے سامنے کھانا رکھتیں۔ والد یوں تو میاں صاحب کے لقب سے معروف تھے مگر پورا گاؤں انہیں ابا جی کہہ کر پکارتا۔خصوصاً میرے کلاس فیلو جب ابا جی کہتے تو ان کی مراد میرے والد ہی ہوتے۔بچوں کے ساتھ کیا شفقت تھی کہ ان سے چھوٹے چھوٹے معاملات پر ہنسی مذاق کرتے۔انہیں خوش کرتے کسی بچی کو کہتے کہ حافظ صاحب سے کون سا سیپارہ پڑھ رہے ہو۔بچی اگر کہتی کہ وہ چوہدواں تو فرماتے کہ آپ کے استاد حافظ صاحب تو نابینا ہیں کل تم بیسواں سیپارہ کھول لینا حافظ صاحب کو کیا پتہ چلنا ہے۔کسی لڑکے سے پوچھتے کہ تم کلاس میں ہو وہ کہتا کہ دوسری تو اسے کہتے کہ سکول میں اتنی تعداد ہوتی ہے تم کل چوتھی کلاس میں بیٹھ جانا۔استاد صاحب کو اتنی تعداد میں کیا پتہ چلنا ہے ؟۔ ایسی پھلجڑیوں سے چھوٹے چھوٹے بچے ان کے دیوانے ہو ہو جاتے۔مگر ان کا تقدس بھرا رعب ہی ایسا تھا کہ خواتین بھی پاس سے گزرتیں تو " ابا جی سلام اے" آپ دعائیں دیتے۔وہ گاؤں کے منشی بھی تھے کسی نے خط لکھوانا ہوتا تو آپ کے پاس ہی آتا۔ایوب خان کے زمانے میں وہ گاؤں کے کونسلر نامزد کیے گئے تھے۔بڑے اہتمام سے انہوں نے ایک مہر بنوائی مگر اس پر صرف اپنا نام لکھوایا کونسلر یا ممبر کا دم چھلا گول کر گئے۔یہی وجہ تھی سارے لوگ راہداری لکھوانے کے لیے آپ کے پاس آتے۔اس کی تحریر بھی ہمیں یاد ہے مگر اس کا نمونہ اپنی سوانح کے لیے اٹھا رکھا ہے۔والد گھر سے رخصت ہوتے تو فورا ایک چہل پہل کا احساس ہوتا۔ایسے لگتا کہ ایوب خان نے مارشل لا اٹھا لیا ہے یا کوئی غیر تحریری آئین معطل کر دیا ہے اب رات کے کھانے تک گھر میں بے جی کی حکومت بحال ہو جاتی۔چارپائی اٹھا دی جاتی اور تکیہ چھوٹی سی بیٹھک میں واپس رکھ دیا جاتا۔ اکہتر میں جب ملک ایک پر آشوب دور میں داخل ہوا اور ہمارے پیارے مشرقی پاکستان میں ایک شورش کا آغاز ہوا تب ہمارے برادر بزرگ وہاں زیر تعلیم تھے۔ہمارا گھر بھی دوسرے تمام مغربی پاکستانیوں کی طرح ایک تشویش میں مبتلا تھا۔ویسے خود کو مغربی پاکستانی کہنے میں جو لذت ہے اس کو بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش ماننے اور کہنے میں جو درد ہے وہ بھی بیان سے باہر ہے۔یہ درد ہماری نسل کے لوگ قبر میں ساتھ لے کر جائیں گے۔ہمارا دکھ دوگونا تھا۔میکرو لیول پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور مائکرو لیول پر بانوے ہزار خاندانوں کی طرح اپنے پیاروں کے بارے میں کسی قسم کی لاعلمی۔کون کہاں ہے اور کون خیریت سے کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔وہ رات مجھے نہیں بھولتی۔یہ تہجد کا وقت تھا۔ہمارا گھر لوگوں سے بھرا پڑا تھا اس میں نوجوان بوڑھے بچے اور خواتین شامل تھیں۔یہ سترہ دسمبر کی رات تھی۔گاؤں والوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ڈھاکہ پر بھارت نے قبضہ کر لیا ہے اور بے جی کا بڑا بیٹا جو وہاں زیر تعلیم تھا اس کی کوئی خبر نہ تھی۔ایک چھوٹا سا ٹرانسسٹر والد کی چارپائی پر پڑا تھا اور ریڈیو پاکستان سے کوئی خوفناک اور پراسرار دھن جاری تھی۔ایسے لگتا تھا کہ اناؤنسر کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔اب باتوں کا وقت گزر چکا تھا۔میری آنکھ کھلی صحن میں مکمل اندھیرا تھا میں نے آنکھیں کھولیں مگر کسی کی شکل واضح نہیں تھی۔تمام لوگ خاموش تھے جیسے کسی معجزے کے منتظر ہوں شاید جو سنا ہے وہ جھوٹ ہو شاید جو کچھ ہو چکا ہے وہ نہ ہوا ہو۔ہونی تو کائنات کی ایسی حقیقت ہے جس کا اپائے دریافت ہی نہیں ہو سکا۔کہتے ہیں دعا سے ہونی ٹل سکتی ہے البتہ اس نے ہونا ضرور ہے۔تب دعا کا وقت بھی گزر چکا تھا۔ٹرانسسٹر پر آواز گونجی اب صدر پاکستان آغا محمد یحیی خان قوم سے خطاب کریں گے۔اس خبیث کی بھاری بھر کم آواز گونجی کہ دشمن نے ڈھاکہ پر قبضہ کر لیا ہے۔اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔البتہ یہ یاد ہے کہ بے جی گاؤں کی عورتوں کے درمیان بت بنی بیٹھیں تھیں۔اب ماموؤں کی موت کے بین ختم ہو گئے ہیں ان بینوں کہ جگہ بیٹے کی گم نامی اور جدائی کے نام پر بلا تعطل اشکوں کی جھڑی نے لے لی ہے۔سقوط ڈھاکہ کے بعد اگلے تین سال بے جی کا معمول رہا کہ ایک دو گلیوں دور جس گھر میں ریڈیو تھا رات کے کھانے کے بعد اس گھر چلی جاتیں۔چپ چاپ خبریں سنتیں اور گرتی پڑتی گہری عشا کے وقت واپس لوٹتیں۔والد کی شاہانہ چارپائی اس پر سفید کھیس اور لال رنگ کا تکیہ کسی صندوق کی تہہ میں جا چکا تھا والد چپ چاپ گھر آتے کھانا کھاتے ایک آدھ بات کرتے ہونی کے ٹلنے کی دعا کرتے اور اپنے ڈیرے ٹھکانے کی طرف لوٹ جاتے۔بے جی رات گئے خبریں اور خبروں پر تبصرے سن کر آتیں تو ہمسائی بھابی شفعیہ پوچھتیں پھپھی جی ریڈیو کیہ آہندا اے پھوپھی جی ریڈیو کیا کہتا ہے بے جی کو تبصروں کی کچھ سمجھ آتی تو اسے بتاتیں۔ایک آس تھی کہ کبھی ریڈیو پر قیدیوں کی واپسی پر کوئی خبر مل جائے۔کبھی وطن لوٹنے والے قیدیوں میں وہ اپنے بیٹے کا نام بھی سن سکیں۔پھر بہار آئی۔بیٹا بھارت کی قید سے واپس آیا۔گھر چار بیٹوں چار بہوؤں داماد اور پوتوں پوتیوں اور نواسوں سے بھر گیا۔نوکروں کی ایک فوج ان کے حکم کی منتظر ہوتی۔بے جی تو گاؤں کی حاکم بن چکی تھیں۔بیٹوں کو دیکھتیں تو ان کی سج دھج ہی اور ہوتی۔عزت شان اور آبرو کیا چیز تھی جو انہیں ارزاں نہ ہوئی۔مگر ان کی بھرم بھا اور سادگی والی عادات وہیں رہیں۔ والد کا انتقال ہوا ان کے بعد جو وقت انہوں نے جس حوصلے سے گزارا اس کی مثال بھی نہیں۔بے جی لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھیں مگر والد کی تصنیفات کے نام یاد تھے۔ان کی تصنیفات کو ایک الماری میں حفاظت سے رکھتیں۔ زندگی کے آخری سالوں میں دواؤں پر گزارا ہونے لگا۔دواؤں کے نام یاد رکھتیں اور کون سی دوا کس وقت لینی ہے کبھی نہ بھولتیں۔ٹیلی فون سرہانے پڑا ہوتا۔بیٹوں سے پوتوں پوتیوں اور بہوؤں کا پوچھتیں۔اپنے باغ کو کھلتا دیکھتیں تو خوشی چھپائے نہ چھپتی۔کبھی ماموؤں کا ذکر چھڑتا تو بوڑھی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں جیسے کہہ رہی ہوں اس دن سعی محمد کا میلہ تھا۔تمہارے ماموں نے نیلے رنگ کی واسکٹ پہنے ہوئی تھی۔ گہرے نیلے رنگ کی۔(ختم شد)