کورونا وائرس نے ساری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت چین کی قیادت ابھی تک یہ دریافت کرنے اور اس پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے،یا پھر اس بات سے آگاہ ہوتے ہوئے جس کا قوی امکان ہے ۔ ۔ ۔ کہ وہ یہ بتانے سے گریز کررہی ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں بشمول سائنس اور ٹیکنالوجی دنیا کی نمبر ایک نہیں تو دو طاقت ہونے کے باوجود آخر وہ اپنے لوگوں کو ایک ماہ گزر جانے کے باوجود ان کی تواتر سے ہونے والی اموات سے کیوں بچا نہیں پارہی؟ جمعہ کی صبح تک کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 177اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 18ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اوراس میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ابتداء میں تو چینی قیادت State of denialمیں رہی اور یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھی کہ کورونا نام کا کوئی وائرس چین میںکوئی وجود ہے۔پھر میڈیا کے حوالے سے کیونکہ چین ان ممالک میں شامل ہے جہاں سخت قسم کی آزادی اظہار پر پابندی ہے۔اس لئے بھی کورونا وائرس کی خبر باہر کی دنیا میں نہیں آسکی۔مگر جب اس وائرس کی لپیٹ میں چینیوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے افراد بھی آنے لگے اور پھر چینیوں کے ساتھ ساتھ یہ وائرس دوسرے ممالک میں بھی پھیلنے لگا تو پھر یہ خفیہ نہیں رہا۔ حیرت کی بات ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارےWHOنے اسے انٹرنیشنل ایمرجنسی قرار دیا ہے ۔ گو کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین کو اس بات کی رعایت دی ہے کہ یہ کوئی چینی حکومت پر عدم اعتماد نہیں ۔اور نہ ہی وہ لاکھوں کی تعداد میں غیر ممالک سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں ،سیاحوں ،تاجروں اور طلباء کو یہ پیغا م دے رہے ہیں کہ وہ چین چھوڑ کر چلے جائیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح اس وائرس سے چین میں جو اموات ہورہی ہیںاور اس کے ساتھ ہی اس کے متاثرین کی تعداد چینیوں کے ساتھ غیر ملکیوں میں بھی بڑھ رہی ہے ۔ ۔۔ چینی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں رہاکہ وہ چین سے نکلنے والوں کو باہر جانے سے روک سکے۔ ۔ ۔ پہل سپر پاور امریکہ نے کی۔ جس نے کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ووہان سے اپنے سفارتکاروں کو ایک خصوصی طیارے سے واپس بلا لیا ہے۔ یوںبھی سپر پاور امریکہ کو روکنا چینی حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔اور اب چین کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی اور ترقی یافتہ ممالک جنہیں اپنے لوگوں کے تحفظ کی ملک میں اور ملک سے باہر ذمہ دار ی اور احساس ہوتا ہے ،اب بڑی تیزی سے ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ جن سے ان کے ملک کے لوگ جلد سے جلد محفوظ طریقے سے وطن واپس لوٹ جائیں۔ بدقسمتی سے اس معاملے میںبھی ہماری اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی قیادت انتہائی ڈھٹائی سے اپنی بے بسی اور بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔صحت سے متعلق وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے خصوصی طور پر ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہمارے خان صاحب کی حکومت نے ایک پالیسی کے تحت چین میں مقیم پاکستانیوں کو واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔موصوف معاون خصوصی ڈاکٹر صاحب کا فرمانا ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اپنے شہریوںکو چین سے واپس بلانا ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔کیونکہ ہمسایہ ملک چین سے ہماری دوستی اتنی گہرائی اور گیرائی سے ہے کہ ہم اس مرحلے پر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے کہ جس سے چینی مفادات پر ضرب پڑے۔ ایک بات تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صحت سے متعلق وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کے خاندا ن بلکہ دور پرے کا کوئی رشتہ دار بھی چین میں مقیم نہیں ہوگا۔یہ تو علم ہے کہ وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادے برطانیہ میں مقیم ہیں۔لیکن یہ بھی پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر ظفر مرزا جب کابینہ میں ہونے والے اس فیصلے کومیڈیا کے سامنے سنا رہے تھے تو تحریک انصاف کی حکومت کے کسی وزیر،مشیر ،معاون حتیٰ کہ ارکان ِ اسمبلی میں سے بھی کسی کا دور پرے کا رشتہ دار چین میں نہیں ہوگا۔کیونکہ چین میں سینکڑوں کی تعدادمیں طالبعلم اور ہزاروں کی تعداد میں مقیم تاجروں کا تعلق ایک عام طبقے سے ہے۔جس کا والی وارث غیر ممالک میں تو کیا خود پاکستان میں بھی نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ جس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ آوارہ گرد کتوں تک پر یہ حکومت قابونہیں پاسکی ۔جن کے کاٹنے سے سینکڑوں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ابھی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غیر ممالک کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد کوئی 26ہزار کے قریب ہے جن میں سب سے زیادہ تعداد ہمارے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی ہے ۔ ۔ ۔ ان قیدیوں کی تعدادکوئی ساڑھے تین ہزار بتائی جاتی ہے۔سال ِگذشتہ جب شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان آئے تھے تو ہمارے وزیر اعظم نے دوزانوںہو کر ان سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کے بار ے میں مہربانی فرمائیں۔ جس پر سعودی شہزادے نے تجاہل ِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے جواب دیا تھا: اچھا دیکھیں گے۔ سعودی عرب کی جیلوںمیں قید پاکستانیوں کی جو دلدوز خبریں آرہی ہیں، ان سے لگتا ہے کہ وہ اور ان کے خاندان ایک انتہائی بہیمانہ سلوک کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ہمارا ملک پاکستان ہی ہوگا جواپنے ہم وطنوں کے بارے میں اتنا بے حس اور بے بس ہوگا۔ساری دنیا کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے ہنگامی بنیادوںپراقدامات کررہی ہے۔ساری دنیا سے چین سے فضائی یا سمندری راستے سے آنے والوں کو اول تو آنے کی اجازت نہیںدی جارہی ۔اور جو آبھی رہے ہیں،تو انہیں ایک کڑے مرحلے سے گذر کر کلیئرنس لینے کے بعد ہی آنے کی اجازت ملتی ہے۔اسی طرح ساری دنیا کے ممالک نے چین جانے والے تمام پروازیں اور زمینی راستے بند کردئیے ہیں ۔ چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے صحت سے متعلق امور کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر مرزا جہاں یہ بیان دے رہے تھے کہ پاکستانیوں کو واپس بلانا ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں،اسی دن وُو ہان سے نکلنے والا پاکستانی طالب علم اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کراچی پہنچ کر اپنے لیاری کے گھر سے یہ بیان دے رہا تھا کہ ووہان شہر کو سیل کردیا گیا ہے ۔اور حکومت کی ہدایت ہے کہ عوام گھروں سے باہر نہ نکلیں۔عملاً ساڑھے 500پاکستانی طالب علم سمیت ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اور غیر ملکیوں کے گھر قید خانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ کورونا وائرس کیا ہے؟ اس پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ ساری دنیاکے سائنسدان جو ایٹم بم جیسا مہلک ہتھیار بنا چکے ہیں،یہ دریافت کرنے میں ناکام رہے ہیںکہ اصل میں یہ وائرس ہے کیا اوریہ کس طرح انسانوں سے انسانوں کو لگتے ہوئے ان کی ہلاکتوں کا باعث بنتا ہے۔ خود چین جو سال دو سال بعد دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بننے کا دعویدار ہے ،آج چین کے صدر شی ژی پنگ اور ان کی حکومت کے بڑوں کے وژن اور کارکردگی پر انگلیاںاٹھائی جارہی ہیں۔ابتداء میںیہ کہا گیا کہ چمگادڑیں ، سانپ اور کتے کھانے سے یہ وائرس پھیلتا ہے۔ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ برسوں بلکہ صدیوںسے یہ چینیوں کی غذا میںیہ شامل ہیں۔مستند تو نہیں ، مگر ایک خبر سوشل میڈیا میں یہ گردش کررہی ہے کہ دراصل چینی سائنسدان کوئی ایسا مہلک biological warfareکا تجربہ کررہے تھے جو کامیاب نہیں ہوسکا ۔اور جس سے یہ وائرس بے قابو ہوگیا۔