سات مارچ 2010کا دن دنیا کے خوبصورت ترین ملک سوئٹزرلینڈ کے لئے بڑا مختلف تھا ، دنیا کے اس پرامن خطے میں رہنے والے ستانوے لاکھ افراد ایک انوکھے ریفرنڈم میں منفردفیصلہ کرنے جارہے تھے ،دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز کے نیوز رومز میں اس عجیب ریفرنڈم کا چرچا تھا نیوز چینلز کے میزبان وسطی یورپ کے اس خوبصورت ملک میں اپنے نمائندوں سے اس ریفرنڈم کی بابت پوچھ رہے تھے سوال جواب کر رہے تھے نیوز رپورٹس چلا رہے تھے سوئس عوام کے خیالات جان رہے تھے اور نیوز شو میں ڈسکس کررہے تھے ،بات ہی کچھ ایسی تھی سوئٹزرلینڈ میں جانوروں کے حقوق پر ریفرنڈم ہورہاتھا ریاست اپنے عوام سے پوچھ رہی تھی کہ بتائیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ زیادتی کا شکار ہونیوالے جانوروں کو پورے ملک میں وکلاء فراہم کئے جانے چاہئیں ؟ زیوریخ میں جانوروں کو یہ سہولت حاصل تھی وہاں زیادتی کاشکار جانور عدالت تک رسائی حاصل کرسکتا تھا اس کیلئے باقاعدہ عدالت موجود تھی،اتفاق سے اس ریفرنڈم میں سوئس عوام نے حکمران جماعت کا موقف درست جانا اورہر ریاست میں جانوروں کیلئے عدالتوں کے قیام کو ضروری نہ سمجھا ان کا خیال تھا کہ اس حوالے سے جو قوانین ہیں وہ کافی ہیں سوئٹزرلینڈ میں جانوروںکے حقوق کے حوالے سے 1992ء سے قوانین بنے ہوئے ہیں جو ان بے زبانوں کو آسان سہل زندگی کو ضمانت دیتے ہیں ۔ ہوا کچھ یوں کہ 20 جنوری 2017کوامریکی ریاست لاس اینجلس میں ایک کتے کے ساتھ فلم کے سیٹ پرنارواسلوک نے طوفان کھڑا کر دیا،یہا ں A Dogs"s Purpos نامی فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی فلم کے ایک منظر میں ایک کتے کوایک طوفانی ریلے میں کودتے دکھانا تھا اس مقصد کے لئے مصنوعی تالاب بنایا گیا اس میں تلاطم پیدا کیا گیا اب اداکار کتے کو لایا گیا لیکن وہ خوفزدہ ہو گیاا ور اس نے پانی میں کودنے سے انکار کر دیا،اسکے ٹرینر نے پیار پچکار سے اسے پانی میں بھیجنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا زبردستی کی تو وہ مزاحمت کرنے لگا شور مچانے لگا لیکن اس کے ٹرینر نے اسے اٹھا کر پانی میں پھینک ہی دیاکتے سے زور زبردستی کا یہ منظر کسی نے سوشل میڈیا پر ڈال دیا بس پھر کیا تھا ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیاجانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے فلم کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا جانوروں کی عالمی تنظیم ’’پیٹا‘‘ نے بھی اپیل کر دی کہ کتوں سے محبت کرنے والے اس فلم کا بائیکاٹ کریں، کینیڈا کے ایک پولیس اسٹیشن میں تو اس ظالمانہ فعل کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ تک درج کرا دیا گیا،خوب لے دے ہوئی فلم کے ہدائت کار لیسی ہال کو وضاحت دینی پڑی معافی مانگنی پڑی کہنا پڑا کہ یہ واقعہ میری غیر موجودگی میں ہوا فلم کے سیٹ پر محفوظ انتظامات کی پوری کوشش کی گئی تھی ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ قریب کی تاریخ کے ورق پلٹتے ہوئے ان خوبصورت لوگوں کے ہاتھ چوم لینے کو جی نہیں چاہتا جو کتے بلیوں اور گھوڑوں تک سے ناروا سلوک برداشت نہیں کرسکتے ،سوئس قوم کے کیا کہنے جہاں نالی میں مچھلی بہانے پر بھی قانون حرکت میں آجاتا ہے ،زیوریخ کی اس عدالت کا کی بات ہی کیا جہاں بیٹھا جج تشدد اور برے سلوک کا سامنا کرنے والے جانور کے مقدمات کی سماعت کرتا ہے ،کیلی فورنیا کے گورنرکو مرشدکہہ کر پکارنے کو من نہیں کرتا جس نے سرکس میں جنگلی جانوروں کے کرتبوں کو خلاف فطرت کہہ کر پابندی لگادی ،یہ نیلی آنکھوں ، ستواں ناک اور گوری چمڑی والے کتنے مہذب ہیں ناں !یہ لوگ صحیح معنوں میں انسان کہلانے کے حقدار ہیں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا سوشل میڈیا پر ایک کتے کے خطرناک سین کی شوٹنگ پر طوفان کھڑا کردینے والوں ان گوروں کو کشمیر میں گولیوں سے شوٹ ہوتے ہوئے اپنے جیسے انسان نظر کیوں نہیں آتے ؟ ان کی انسانیت کون سے پہاڑ پر جا چڑھتی ہے ؟ کہاں تیل لینے چلی جاتی ہے ؟مقبوضہ کشمیر میں مودری سرکاری کی آئین گردی کے بعد شروع کئے جانے والے لاک ڈاؤن کو 200دن ہوچکے ہیں ،ان 200دنوں میں 70کشمیری جان سے مار ے جاچکے ہیں،کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 11نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیاگیا ،فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد 900سے زائد ہے ،گرفتارہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے وہاں 80لاکھ کی آبادی پر 10لاکھ فوجیوں کھڑے ہیں ،کسی گلی کا کوئی کوناکوئی نکڑ ان بندوق برادروں کی موجودگی سے خالی نہیں،سوشل میڈیا پر پابندی ہے،انٹرنیٹ بند ہے ،سیل فونز کی گھنٹیاں خاموش ہیں،بازار دکانیں بند ہیں معیشت تباہ ہوچکی ہے ادویات کی قلت ہے شیر خوار بچوں کے فیڈر خالی ہیں اور ان مہذب لوگوں کی آنکھیں بھی خالی ہیں ان میں ان مظلوم کشمیریوں کے لئے کوئی احساس تک نہیں ،کتے بلیوں حتیٰ کے سوروں کے حقوق کے لئے مارچ کے ہر پہلے دن PIG DAYمنانے والی قومیں بھی زبانیں لپیٹ کر اپنی ناف میں رکھ چکی ہیں ،انسانی حقوق تو جانے دیجئے یہ قومیں تو اپنے جیسے جیتے جاگتے انسانوں کو جانوروں کی سی اہمیت دینے کو بھی تیار نہیں ،بھارتی سول سوسائٹی کے رکن انڈین ائیرفورس کے سابق ائیر وائس مارشل کپل کاک سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کے ساتھ سری نگر کا دورہ کرنے کے گئے تھے انہوں نے واپسی پر دہلی میں کشمیر کویخ بستہ جیل قرار دیاجو یقیینا جھوٹ ہے کشمیر جیل نہیں ہوسکتا جیل میں بھی قیدیوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں قاعدے قوانین ہوتے ہیں کوئی اصول تو لاگو ہوتے ہیں یہاں تو اک ہی اصول ہے کہ جو کھڑا ہو اسے ٹھوک دو،کشمیرکو کشمیریوں سے صاف کردو بھارت کو کشمیر چاہئے کشمیری نہیں وہ اسی پالیسی پر عمل کر رہا ہے اور عالمی ضمیر جاڑے میں نرم رضائیاں اوڑھے اپنے پالتو بلیوں کتوں کے ساتھ سو رہا ہے ان گوروں کا ضمیر صرف ان کتے بلیوں اور گدھوں گھوڑوں پر مارپیٹ سے ہی جاگتا ہے کاش کسی بھارتی فوجی کے ہاتھ میں پکڑی پیلیٹ گن کے چھرے سری نگر میں کسی کتے کی آنکھیں پھوڑ دیں ،کسی بندر کو زخمی کردیں شائد ان معصوموں کی یہ قربانی عالمی ضمیر پر سے کمبل کھینچ لے۔