رواں اس آنکھ سے اشکوں کا ایک دریا ہے کسی نے دل پہ تسلی کا ہاتھ رکھا ہے ہماری آگ سے کندن نہ بن سکا سونا ہماری آہ سے پتھر تو ایک پگھلا ہے مگر ہر خواب کو تعبیر کہاں ملتی ہے ہر آرزو ثمر بار کب ہوتی ہے اور خوش فہمی کب تجسیم پاتی ہے۔ خزاں رسیدہ سی شاخوں سے کتنے پات گرے۔ کسے خبر ہے کہ دل بھی کسی کا ٹوٹا ہے ضروری تو نہیں کہ کسی پر قیامت گزر جائے تو کوئی دوسرا بھی اس سے متاثر ہو اس کے لئے تو کوئی صاحب دل ہو تو سوچے سانحہ مچھ کے حوالے سے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ دل کٹ چکا ہے میرا نہیں خیال کہ کوئی شخص اس دل فگار سانحہ پر دل گرفتہ نہیں مگر آفرین ہے ہمارے وزیر اعظم پر کہ جو ریاست مدینہ کے دعوے دار ہیں کہ وہ مظلوموں کی اشک شوئی کے لئے وہاں پہنچیں ہوں جہاں خون کو منجمد کرنے والی سردی میں لواحقین اور احتجاجی اپنے پیاروں کی لاشوں کو رکھ کر دھرنا دئیے ہوئے ہیں اور ایک ہی مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم آ کر ان کے مطالبات سنیں یقین نہیں آتا کہ خان صاحب اب تک کیوں اجتناب کر رہے ہیں اور بے گور لاشیں ساتویں دن بھی تدفین کی منتظر ہیں۔ میں پڑھ رہا ہوں کہ ہر ذی شعور نے حیرت کا اظہار کیا ہے اور خان صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مظلومین کے اس جائز مطالبے پر صاد کہتے ہوئے آخر کیوں دھرنے پر نہیں جا رہے۔ حیرت ہے کہ اس مقصد کے لئے وزیروں مشیروں کے ساتھ اجلاس کئے جا رہے ہیں اور کسی نتیجہ پر آپ نہیں پہنچے۔ شاید آپ کی مصروفیت واقعتاً کچھ زیادہ ہی ہے کہ آپ انتہائی ذمہ دار اور ڈسپلن کے آدمی ہیں ہمیں معلوم ہے کہ آپ باقاعدگی سے ایکسر سائز بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح کی دیگر مصروفیات سے آخر وقت تو نکالنا پڑتا ہے۔ شاید یہ چیز بھی آڑے نہ آتی کہ شاید آپ زیادہ ہی حساس دل رکھتے ہیں کہ اپنے عزیزوں کے جنازے پر بھی نہیں جاتے کہ سانحہ آپ سے برداشت نہیں ہو سکتا۔ چلیے یہ بھی بہت ہے کہ جناب نے ہزارہ برادری کے تحفظ کے لئے خصوصی میکنزم بنانے کا حکم دے دیا۔ پھر آپ کا حکم تو آپ کا حکم ہے جب ہوتا ہے تو اس کی تعمیل کی جاتی ہے۔ ہزارہ کے مظلوم دوستوں سے التجا ہے کہ وہ لاشوں کو اٹھا لیں۔ شہیدوں کو دفن کردیں۔ پتہ نہیں کیوں لگتا ے کہ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا۔ خود فراموشیاں نہ پوچھ اپنی زندگی کا عذاب ٹالتے ہیں مجھے اختر حسین جعفری بہت یاد آئے اور پھر ان کا لکھا ہوا بھٹو کا نوحہ بھی یاد آیا جس میں تذکرہ تھا کہ اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں۔ پھر نوحے کی آخری لائن میں تو جیسے احتجاج میں رکھی لاشیں اور ان کے اردگرد بیٹھی بیبیاں مخاطب ہوں: ڈھانپ دو یہ مشک امبر اور دائیں نوک پاتک کھینچ لو پھر مجھے اختر حسین جعفری کی گفتگو تازہ ہونے لگی کہتے تھے کہ ہم غلامی میں کب تک رہیں گے۔ یہ جبر کا موسم کب تک ہم پر مسلط رہے گا۔ ہمارے بچے بھی غلام پیدا ہونگے ان کی باتوں میں بہت درد ہوتا تھا۔ دوستوں کو یاد ہو گا کہ ان کی نظم کی کچھ سطور جنرل ضیاء الحق نے منفی ادب کہہ کر حوالہ بنایا تھا اور کتنے ادیب دست بستہ وہاں سب کچھ سن رہے تھے۔ مذہب تو انسانیت سکھاتا ہے۔ یقینا اس کے پیچھے ازلی دشمن کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔کلبھوشن تو اسی سلسلہ میں پکڑا گیا تھا۔ مگر پھر بات وہیں آتی ہے کہ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے تو وزیر اعظم کو وہاں پہنچ جانا چاہیے ۔ حکومت کی غلط حکمت عملی کے باعث یہ معاملہ پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ خاص طور پر کراچی اور لاہور میں۔ لاہور میں گورنر ہائوس کے باہر بھی احتجاج جاری ہے۔ مچھ کے شہدا کے لئے ملک بھر میں جو احتجاج ہو رہا ہے اس میں تمام مسالک کے لوگ یکجہتی کے لئے آئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم صاحب ترک ڈرامے کے اداروں کے ساتھ مل کر ڈرامے کے پروگرام بنا رہے ہیں۔ حکومتی ترجمان، مریم نواز اور بلاول زرداری کے وہاں پہنچنے اور ان کی گفتگو کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کہہ رہے ہیں۔ مگر جناب ان سے پوچھیے جن کو پرسا دینے وہ وہاں پہنچے حتیٰ کہ عبدالغفور حیدری بھی۔ خان صاحب کا ایک پرانا کلپ چلایا جا رہا ہے جس میں وہ ہزارہ کے حوالے سے یکجہتی کرتے ہوئے ایسے میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کر رہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ یہ بھی رکھنا تھا دھیان میں تم کو وہ اچانک اگر بدل جائے عمران خان کو تو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے سیکھنا چاہیے تھا کہ کس طرح اس نے خاتون نے مسلمانوں کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کی۔ اس نے بروقت غیر معمولی فیصلہ کر کے قاتل کو گرفتار کر کے مقدمہ چلا کر انجام تک پہنچایا۔ اس باعث وہ بار بار منتخب ہو رہی ہیں۔ خان صاحب نے کمال یہ کیا کہ وہاں کے ڈی پی او کو تبدیل کر دیا۔ حکومت کے نمائندے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب مناسب وقت پر جائیں گے۔ اب اس وضاحت پر کوئی کیا کہے: بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے پتہ نہیں خان صاحب ان نعروں سے ڈر گئے جو ان کے وہاں پہنچنے پر متوقع طور پر لگ سکتے ہیں مگر وہ نعرے تو سب سن رہے ہیں۔ وہ لوگ محب وطن ہیں اور ان کو محب وطن سمجھا جائے۔ ان کو اہمیت دی جائے۔ اب بھی خان صاحب۔ وہاں چلے جائیں وگرنہ حالات بگڑ بھی سکتے ہیں۔ بے حسی کا رویہ عوام کو بددل کر دے گا۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: خاک اڑنے لگے جب آنکھوں میں سبھی دنیا پہ خاک ڈالتے ہیں