خان گڑھ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی پرجوش تقریر سن کر مجھے تقریر نویس کی کم علمی اور نوجوان لیڈر کی سادہ لوحی پر تعجب سے زیادہ افسوس ہوا۔ اٹھارہویں ترمیم کے سبب وفاق کے مسائل میں اضافہ ہوا، عوام کے تعلیمی، طبی اور معاشی مسائل بڑھے اور وفاق میں کار حکمرانی دشوار تر ہو گیا۔ اندرونی اور بیرونی مسائل میں الجھا وفاق قرضے اتارے، قومی دفاع و سلامتی کے لیے وسائل جمع کرے، مہنگائی و بے روزگاری سے نمٹے یا صوبائی خود مختاری کے نام پر بلیک میلنگ کا مقابلہ کرے؟ عمران خان نے گھوٹکی کے جلسہ میں اٹھاہویں ترمیم کی انہی تباہ کاریوں کا ذکر کیا جبکہ صحافیوں کی ایک محفل میں ریاست کے ایک اہم ادارے کے سربراہ نے اسی حوالے سے میاں نواز شریف کی گفتگو کا حوالہ دیا تھا۔ بلاول بھٹو نے مگر اٹھارہویں ترمیم سے آگے بڑھ کر ون یونٹ کے قیام کا خدشہ ظاہر کر دیا اور دھمکی دی کہ کسی نے اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے اور ون یونٹ کے قیام کی کوشش کی تو دما دم مست قلندر ہو گا۔ اٹھارہویں ترمیم بھی آئین کی دوسری ترامیم کی طرح دو تہائی اکثریت سے منظور ہوئی اور آصف علی زرداری و نواز شریف نے اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفاد کی خاطر ریاست کی بنیادوں میں ڈائنامائٹ رکھ دیا۔ غلطیاں، خامیاں اور کمزوریاں سامنے آ جانے کے بعد بھی انہیں درست نہ کرنا حماقت سے زیادہ سنگدلی ہے اور ایک ایسی حکومت اسے کیوں چھیڑے گی جسے قومی اسمبلی میں دو تہائی اور سینٹ میں سادہ اکثریت حاصل نہیں ۔ رہا ون یونٹ کا قیام تو یہ کس کی خواہش ہے اور کہاں اس منصوبے پر کام ہو رہا ہے؟ بلاول بھٹو کے سوا کسی کو علم نہیں، بلاول بھٹو نے دعویٰ کیا کہ ون یونٹ کے قیام سے پاکستان ٹوٹ گیا اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے، ون یونٹ کے قیام سے پاکستان توڑنے کی سازش ہو رہی ہے۔ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ بولنے والا شخص سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اس نے کہا کیا اور کہی گئی بات کس قدر قرین حقیقت و قیاس ہے؟ بلاول بھٹو شاید یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو دل و جان سے نہ صرف صدارتی نظام، ون یونٹ اور مرکزیتِ اختیارات کے قائل تھے بلکہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ کے واحد رکن تھے جو انہیں ڈیڈی کہہ کر پکارتے۔ بھٹو صاحب ملک میں کس قسم کا نظام حکومت اور آئین پسند کرتے تھے‘ اس پر رائے زنی سے قبل الطاف گوہر کا بیان کردہ ایک واقعہ قارئین کی نذر ۔ ’’ایک روز بھٹو صاحب نے مجھ سے کہا کہ وہ آرٹس کونسل میں مصوری کی ایک تقریب کا افتتاح کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں ان کے لیے تقریر لکھ دوں، اس زمانے میں پاکستانی مصوروں سے میرے قریبی تعلقات تھے اور وزیروں کے لیے تقریریں لکھنا میرا مشغلہ تھا، بھٹو صاحب نے یہ کہہ کر اپنی تقریر شروع کی کہ ’’ہمارے ہاں گورنر اور وزیر سرکاری افسروں سے تقریر لکھوا کر پڑھ دیتے ہیں حالانکہ جس موضوع پر وہ اپنی علمیت بگھار رہے ہوتے ہیں، اس کے بارے میں انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا،میں بھی اس رسم کی پیروی کر سکتا تھا، مگر اس محفل میں صاحب فکر لوگ موجود ہیں میں ان سے براہ راست بات کرنا چاہتا ہوں‘‘، یہ کہہ کر بھٹو صاحب نے حرف بحرف میری لکھی ہوئی تقریر بڑے جوش سے دہرا دی،معلوم نہیں تقریر کو حفظ کرنے میں انہیں کتنا وقت لگا ہو گا؟ مجھ پر بھٹو صاحب کی شخصیت کا یہ پہلو آشکار ہو گیا کہ دروغ گوئی کے فن پر انہوں نے قابو پا لیا تھا‘‘۔ بھٹو صاحب نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو ایک محضرنامہ بھیجا جس پر 10اکتوبر 1959ء کی تاریخ درج ہے۔ بھٹو نے الیگزینڈر ہیملٹن کے قول سے محضرنامے کا آغاز کیا۔ ’’عوام کو غداری کا مرتکب ہونے والے نمائندوں کے خلاف بلا توقف ہتھیار اٹھانے چاہئیں‘‘ بھٹو نے ایوب خان سے اپیل کی کہ ’’وہ عوام کو ان کے شعور اور ضروریات کے مطابق، ایک ایسا آئین دیں جس میں سیاستدانوں کے مطالبات سے کسی قسم کی مفاہمت نہ کی جائے، ہو سکتا ہے کہ جمہوری ممالک میں ہمیں تنقید کا سامنا کرنا پڑے مگر ہمیں اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے، اس آئین کے دیباچے میں اسلامی نظریہ پیش کیا جائے لیکن آئین میں اسلامی نظرئیے کا کم سے کم ذکر کیا جائے۔انتظامیہ کو مقننہ کی بالادستی سے بہر صورت آزاد ہونا چاہیے، صدر کو ہر قسم کی مداخلت سے آزاد اور خود مختار ہونا چاہیے اور اس کے اقتدار میں رہنے کا انحصار کسی طور پر بھی پارلیمنٹ کی صوابدید پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہمیں وحدانی طرز حکومت قائم کرنا ہے تو اس میں صوبے اپنی موجودہ صورت میں قائم نہیں رہ سکتے۔ صوبوں کو مرکز کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنا چاہیے اور ان کے پاس اختیارات صرف ایجنٹ کے ہونے چاہئیں‘‘ بھٹو صدارتی اور وحدانی نظام کے اس قدر دلدادہ تھے کہ انہوں نے 1973ء کے آئین کی منظوری کے بعد جس میں بطور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حیثیت فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی تھی یہ کوشش جاری رکھی کہ صوبوں کے اختیارات مزید کم سے کم کر دیئے جائیں۔ بھٹو نے انگلستان سے ایک ماہر قانون پروفیسر لیزلی وولف فلپس Lesli wolf phillips کو بلا کر اپنا آئینی مشیر بنایا اور ٹاسک دیا کہ وہ آئین میں ایسی تبدیلیاں کرے کہ یہ آئینی نظام صدارتی بن جائے، لیزلی کو ہدایت کی گئی کہ ’’صوبائی اسمبلیاں ختم کر دی جائیں، گورنر اور وزیر اعلیٰ ملک کے وزیر اعظم کے ایجنٹ ہوں اور صوبے کا بجٹ قومی اسمبلی کے ان ارکان پر مشتمل کمیٹی منظور کرے جن کا تعلق اس صوبے سے ہو‘‘۔ ان تبدیلیوں پر غور کرنے کے لیے کابینہ کا ایک اجلاس لاڑکانہ میں بلایا گیا جس میں بھٹو صاحب نے لیزلی سے کہا آپ نے محنت تو بہت کی ہے مگر صدر کے پاس اب بھی بہت زیادہ اختیارات ہیں، لیزلی نے ہنس کر کہا کہ ’’جناب وزیر اعظم! صدر کے پاس صرف سفیروں کی اسناد قبول کرنے کا اختیار رہ گیا ہے کہیں تو وہ بھی ختم کر دوں‘‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کو مرے اور اس کے صدارتی نظام کے علاوہ ون یونٹ کو ختم ہوئے پچاس سال گزر گئے۔ ایوب دور کی معاشی ترقی، سیاسی و اقتصادی استحکام کو دنیا یاد کرتی ہے اور بھٹو سے لے کر نواز شریف تک سیاسی قیادت کے علاوہ پارلیمانی نظام نے ملک کو جو چرکے لگائے وہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار صرف وہ شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں خوف خدا ہے نہ خیال روز جزا۔ بحث مگر اب بھی جاری ہے اور مفروضوں پر ملک توڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑنے کا اعلان یکم جنوری 1970ء کو کیا، پاکستان یحییٰ خان، مجیب الرحمن، بھٹو کی ہٹ دھرمی، ہوس اقتدار اور ناعاقبت اندیشی کے علاوہ بھارت کی کھلی فوجی مداخلت سے دسمبر 1971ء میں ٹوٹا، مگر ذمہ دار ون یونٹ ہے یا ایوب خان۔ ون یونٹ کے خاتمے، پارلیمانی نظام کی بحالی اور ایوب خان کے استعفے کے لیے گول میز کانفرنس کو سبوتاژ شیخ مجیب الرحمن نے کیا ملک میں ہنگامہ آرائی بھٹو اور بھاشانی کا کارنامہ تھا، قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان جا کر اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہونے والے ارکان کو دھمکیاں بھٹو نے دیں اور مکتی باہنی بھارت نے تشکیل دی مگر پاکستان صدارتی نظام کی وجہ سے ٹوٹا یا ون یونٹ کے باعث؟ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن۔ کوئی مولوی اگر اسلامی عقائد و شعائر کے حوالے سے قرآن و حدیث کے احکامات پر من و عن کاربند رہنے کی تلقین کرے تو اسے کٹھ ملا، بنیاد پرست اور انتہا پسند کا طعنہ ملتا ہے، اجتہاد سے ناواقف اور ماضی کا اسیر۔ لیکن اگر سیاستدان اٹھارہویں ترمیم کو مقدس آسمانی صحیفہ قرار دیں اور پارلیمانی نظام کو تمام تر قباحتوں کے باوجودجاری رکھنے پر اصرار کریں کہ اس سے ان کا ذاتی و خاندانی کاروبار چلتا اور لوٹ مار منی لانڈرنگ کا راستہ نکلتا ہے، تو یہ عین تقاضائے جمہوریت ؎ آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ایوب خان نے یحییٰ خان کے نام خط اور اپنی الوداعی تقریر میں انتباہ کیا تھا کہ ’’بعض عناصر پاکستان توڑنے کی سازش کر رہے ہیں جس میں، میں حصہ دار بننا نہیں چاہتا‘‘، پاکستان توڑا گیا، مگر ہوش ہمیں پھر بھی نہیں آئی۔ ون یونٹ کے قیام اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کا شور مچانے کے بجائے محبان جمہوریت اور محافظان آئین اپنی لوٹ مار، جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کا حساب کیوں نہیں دیتے۔