اگرچہ بیماری کا علاج ضروری ہے مگر اس سے زیادہ ضروری معالج کا ہونا ہے ،کیونکہ علاج نیم حکیم کرے تو جان ہی خطرے میں پڑجاتی ہے ،بدعنوانی اور بدنظمی کے ستائے عوام حالات سے نجات کے طلب گار تھے لہذا تبدیلی کے نعرہ مستانہ پر دیوانہ وار جھانسے میں آ گئے اور یوں نظام کو لاحق بیماریوں کا ازسرنو علاج معالجہ شروع ہوگیا،کسی کی نیت پر شک تو نہیں کیا جاسکتا البتہ اس نئے علاج کے دوران انواع اقسام کے سائیڈ ایفکٹس ضرور پیدا ہوئے جن سے عوام الناس مایوسی کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ملکی اداروں کو خودمختار ہونا اور سیاسی دبائو سے آزاد ہونا بلا شبہ ایک اہم ضرورت تھی مگراس سے زیادہ اہم ضرورت انہی اداروں کا بدعنوانی سے پاک ہونا ہے ،بدعنوانی کا تدارک کئے بغیرہی اداروں کو خودمختاری کا سیرپ پلادیا گیاجس سے یہ ادارے سائیڈ ایفکٹس کا شکار ہوکر ا ب شتر بے مہار ہوچکے ہیں،پہلے ممبران اسمبلی یا بلدیاتی قائدین کی مداخلت سے عوام کی دادرسی ہوجاتی تھی مگر عوام اب اس سائے سے بھی محروم ہوچکی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اداروں میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال سے انسداد بدعنوانی کے الگ اور وسیع سیکشن بنائے جائیں جو اپنے اہلکاروں کی تمام تر انتظامی حرکات وسکنات کو نظروں میں رکھیں ،اسی سیکشن میں موبائل یا انٹرنیٹ کے ذریعے بدعنوانی کی شکایات بھی وصول کی جائیںاور ان کو عدل کے مطابق دور کیاجائے ،ان اقدامات کے بغیر اداروں کی خودمختاری بہتری کی بجائے مسائل میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔ ( قاسم علی قاسم‘ گوجرخان)