مقام شکرہے کہ سوشل میڈیا دہلی کی سچی تصاویر اوردرست صورتحال ہم تک پہنچاتاہے ورنہ بھارتی میڈیامظلوم بھارتی مسلمانوں کوہی ظالم بناکرپیش کرکے صورتحال اورحقائق تبدیل کرنے کی مذموم اورشرمناک کوشش کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا۔ سوشل میڈیاکے توسط سے دہلی کے مسلمانوں پربیت جانے والے مظالم کی جوویڈیوزہم تک پہنچ رہی ہیں ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتاہے کہ کس طرح بے رحم ہندوقاتل ’’ہندوغنڈے اورپولیس ‘‘مل کرپوری ڈھٹائی کے مسلمانان دہلی اوران کی املاک کوخون اورآگ کی نذرکررہے ہیں۔پولیس کاغنڈوں کے دوش بدوش ہونا اس امرکوواشگاف کرتاہے کہ مسلم کش فسادات ایک منصوبہ بندطریقے پرہوئے جس کی تیاری پہلے کی گئی تھی۔شمال مشرقی دہلی کو دیکھیں تو جیسے شہر بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے۔سوشل میڈیاپرسامنے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں مسلح ہندوغنڈے زخمی مسلمان مردوں کو ہندوانہ اورمشرکانہ کلمات پڑھنے پر مجبور کرتے جبکہ ان کی خواتین کو بے رحمی کے ساتھ پیٹتے نظر ہیں۔روتی بلکتی مسلم خواتین جس طرح اپنی بپتاسنارہی ہیں جگرپاش پاش ہوجاتاہے ۔ بلاشبہ دہلی کے مسلم کش فسادات2002ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات کا(REPLAY) ہیں۔ ان مناظرکو دیکھ کرہرانسان کادل دہل جاتاہے اوردہلی کے مسلم کش فسادات نے انسانی ضمیرکو جنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔بھارت کی حالیہ تاریخ کے یہ ہولناک اوربدترین مسلم کش فسادات ہیںجن میں تادم تحریر50سے زائدمسلمان شہیدجبکہ ایک ہزارسے زائدزخمی ہوچکے ہیں۔ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ان مسلم کش فسادات پر انسانیت شرمسار ہے۔ وہ انسانیت جو بھارتی غنڈوںکے ہی اندر سہم کر، دبک کر رہ گئی ہے اور ان کی حیوانیت اوردرندگی نظرآرہی ہیں۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ان مسلم کش فسادات میںالہدی فاروقیہ مدرسہ خاک ہو چکا ہے جوتادم تحریر اب بھی سلگ رہا ہے،اس سلگتے مدرسے میں بچوں کی چپلیں اب بھی پڑی، بستے پڑے ہیں، قرآن کے صفحات پورے ہال میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں لکھی گئی کچھ کتابیں آدھی جلی ہوئی تھیں۔ بین الاقوامی میڈیاکے سامنے آکردہلی کی مسلم خواتین نے اپنی چوٹیں دکھائیںجن میں سے ایک خاتون کا کہنا تھاکہ ایک ہو یا دس، اس کے کھونے کا دکھ کم کیسے ہو گا۔ اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ دہلی ہنگاموں کا موازنہ ماضی میں ہونے والے انڈیا کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات سے کیا جا رہا ہے۔ 2002ء میں گجرات میں ایک ٹرین میں لگنے والی آگ کے نتیجہ میںتین ہزار سے زائد مسلمان شہیدکردیئے گئے تھے ۔اس وقت مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے۔گجرات مسلم کش فسادات میں بھی پولیس دہلی کی طرح براہ راست ملوث تھی۔ بران یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اشوتوش ورشنے جنھوں نے انڈیا میں بڑے پیمانے پر مذہبی تشدد پر تحقیق کی ہے ، کا خیال ہے کہ دہلی کے فسادات میں 2002ء کی طرح منظم قتل عام دکھائی دیتا ہے۔پروفیسر ورشنے کے مطابق منظم قتل عام اس وقت ہوتا ہے جب پولیس ہنگاموں کو روکنے کے لیے غیر جانبدارانہ طور پر کام نہیں کرتی، اس طرف توجہ نہیں دیتی جب مسلم کشی پراترآئے ہجوم ہنگامہ آرائی کر رہا ہوتا ہے اورپھر مجرموں کی واضح طور پربھی مدد کرتی ہے۔ بی جے پی اورآرایس ایس کے درندے سفاک پولیس سے مل کردہلی میں مسلم کش فسادات برپاکرکے دوفائدے اٹھاناچاہتے تھے ایک مسلمانان دہلی پررعب جماکر اور انہیں خوفزدہ کرکے دہلی سے بھگانا چاہتے تھے دوئم کیجری وال کی رٹ کوختم کرکے اسے ایک ناکام حکمران کے طورپرپیش کرکے دہلی پرقبضہ کرناچاہتے تھے ۔ اس حوالے سے سیاسیات کے ماہر بھانو جوشی اور محققین کی ایک ٹیم نے فروری2020 ء میں ریاستی انتخابات سے قبل دہلی کے حلقوں کا دورہ کیا تھا۔ انھیں علم ہوا کہ حکمراں جماعت بی جے پی نے اپنی جماعت کو شبہات، دقیانوسی تصورات اور بد نظمی کے بارے میں مسلسل پیغام دینے کے لیے متحرک کیا ہوا ہے۔ایک محلے میں انھوں نے پارٹی کے ایک کونسلر کو لوگوں سے یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ آپ اور آپ کے بچوں کے پاس مستقل ملازمتیں اور پیسہ ہے۔ لہذا مفت، مفت کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں۔ وہ حکومت کی طرف سے لوگوں کو مفت پانی اور بجلی دینے کی طرف اشارہ کررہی تھیں۔اگر یہ قوم باقی نہیں رہی تو تمام آزادیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔تجزیہ کار جوشی کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں ملکی سلامتی کے بارے میں اس طرح کی پیش گوئی کرنا کہ جب انڈیا ایک محفوظ ملک ہے پہلے سے موجود لسانی تفریق کو مزید وسعت دینا اور لوگوں کو شبہات میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ دہلی کی انتخابی مہم میں مودی اوراس کی جماعت نے ایک متنازعہ نئے شہریت کے قانون، کشمیرسے دفعہ 370 ختم کرنے اور بابری مسجدکی جگہ رام مندر بنانے کے لیے معاشرے کو تقسیم کرنیکی مہم شروع کی۔پارٹی قائدین نے آزادانہ طور پر نفرت انگیز تقاریر کی تھیں ۔ دہلی کے ایک مسلم اکثریتی محلے شاہین باغ میں خواتین کے ذریعہ شہریت کے قانون کے خلاف وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاج کو بی جے پی کی مہم نے خاص طور پر نشانہ بنایا تھا جس میں مظاہرین کو ’’غدار‘‘ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔بھانو جوشی کا کہنا ہے کہ اس مہم کے نتائج واٹس ایپ گروپس، فیس بک پیجز، اور گھرانوں میں شبہات اور نفرت پر مبنی گفتگو کے صورت میں سامنے آئے۔دلی کی نازک اور حساس صورتحال کے بگڑنے میں صرف وقت حائل تھا۔اتوار 23فروری 2020ء کو جے پی کے لیڈرکپل مشرانے دھمکی جاری کرتے ہوئے دہلی پولیس کو کہا کہ ان کے پاس ان مقامات جہاں لوگ شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں کو خالی کروانے کا تین دن کا وقت ہے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔یہ دراصل مسلمانان دہلی کے خلاف اعلان جنگ تھااوراس کے بعدمسلم کش حملے شروع ہوئے۔