کچھ دنوں سے یوں لگ رہا ہے کہ اپوزیشن بے سمت ہو گئی ہے اسکو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر متحرک کردار ادا کریں اور حکومت کو ناکوں چنے چبوائیں یا کوئی تحریک چلائیں اور آخری آپشن جس کا وہ روز استعما ل کرتے ہیں کہ صرف بیانات اور توپوں میں کیڑے پڑنے والے کوسنے دے کر عوام کو امید دلاتے رہیں کہ بس عمران کی حکومت صبح گئی کہ شام گئی ۔ شاہد خاقان عباسی جیل سے رہا ہو چکے ہیں اور وہ کوئی نیا فارمولا لے آئے ہیں جس کے بارے میں وہ خود واضح نہیں ۔ ایک طرف وہ فرماتے ہیں کہ ہم عمران خان کی حکومت نہیں گرانا چاہتے اگر وہ عوام کی خدمت کر رہی ہے تو اسے پانچ سال پورے کرنے چاہئیں اور ساتھ ہی وہ سب سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کسی نئے سوشل کنٹریکٹ کی بات کر رہے ہیں ۔ سٹیک ہولڈرز میں وہ اپنے قائد نواز شریف کے بر عکس ان قوتوں کو بھی شامل سمجھتے ہیں جنکے بارے میں ووٹ کو عزت دو والے بہت منفی رائے رکھتے ہیں ۔ ساتھ ہی ایک انٹر ویو میں انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ وہ ایک ڈیل کے نتیجے میں جیل سے باہر آئے ہیں اگر یہ درست ہے اور انہوں نے سنجیدگی سے اس بات کا اعتراف کیا ہے تو پھر یہ ڈیل کیا ہو سکتی ہے ۔ ابھی تک تو یہ دکھائی دے رہا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میاں شہباز شریف اور نواز شریف کی غیر موجودگی میں ایک قابل قبول قیادت کے طور پر اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں لیکن اس بارے میں بظاہر لگتا ہے کہ انکے قائد خوش نہیں ہیں اسی لئے مسلم لیگ (ن) کے اندر سے شاہد خاقان عباسی، عطا تارڑ، احسن اقبال جیسے لوگوں کے خلاف آوازیں اٹھنی شرع ہو گئی ہیں ۔ خانیوال سے منتخب مسلم لیگ(ن) کے ایم پی اے نشاط خان ڈاہا نے جو علم بغاوت بلند کیا ہے اسکے نیچے جمع اپنے جیسے لوگوں کو جمع کرنے میں انہیں دیر نہیں لگے گی کیونکہ یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے ۔ ہمارے سیانے سیاستدانوں کو ذرا سا قیادت کے کمزور ہونے کا پتہ چلے وہ پھر ایک ایک کر کے اڑ جاتے ہیں اور کسی نئی شاخ پر اپنا آشیانہ بنالیتے ہیں ۔ یہ پرندے جن کو عرف عام میں لوٹا بھی کہا جاتا ہے صرف پنجاب اسمبلی میں نہیں قومی اسمبلی میں بھی موجو د ہیں ۔ حکومتی اتحادی واویلا مچانے کے بعد پھر اسی تنخواہ پر تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کام کرنے لگے ہیں بلکہ اب اپوزیشن کو مفت مشورہ بھی دے رہے ہیں جیسا کہ چوہدری شجاعت اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان ہونے والے ذو معنی گفتگو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جس میں ریلو کٹے، امانت ،خیانت وغیرہ وغیرہ کا ذکر ہوا ۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی تقریباً ٹھنڈے پڑ چکے ہیں اب وہ صرف شکایت لگانے کی دھمکی دے کر اپنے مربیّ چوہدری صاحبان سے کوئی فیور چاہ رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا ذکر کریں تو محترم آصف علی زرداری کی سیاسی سوجھ بوجھ سے زیادہ لوگ انکی سیاسی چالوں سے متاثر رہے ہیں ۔ انکو بھی چپ سی لگ گئی ہے ۔ انکے بارے میں یہ خو ش گمانی انکی جماعت کے اندر اور خطرہ دوسری سیاسی جماعتوں میں ہر وقت محسوس کیا جاتا ہے کہ وہ کسی وقت بھی بازی پلٹ سکتے ہیں ۔ بلکہ پیپلز پارٹی تو ببانگ دہل نعرہ لگاتی ہے;234; ایک زرداری سب پر بھاری ۔ دوستوں کے دوست کہے جانے والے اگر کسی سے سیاسی اختلاف کرتے تھے تو پوری زندگی صلح کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی تھی ۔ لیکن جب آصف زرداری بار بار شریف برادران کے ساتھ تجدید تعلقات کرتے نظر آتے ہیں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت بدل چکے ہیں ۔ انکا مزاج یقیناً انہیں روکتا ہو گا کہ ایسے لوگوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں جنکے ہاتھوں انکی زندگی کے گیارہ قیمتی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزر گئے، وہ بلاول، بختاور اور آصفہ کی قلقاریاں نہ سن سکے ۔ انکی پرورش میں حصہ نہ ڈال سکے ۔ اپنی شریک حیات کے ساتھ چند سال بھی سکون سے نہ گزار سکے ۔ لیکن سیاسی سوجھ بوجھ انہیں شاید کوئی حتمی قدم اٹھانے سے روکتی ہے ۔ شاید انکے ذہن میں ہو کہ جو کچھ انہوں نے بھگتا ہے، بلاول یا آصفہ کو سیاست میں ان ظالموں کے ہاتھوں نہ بھگتنا پڑے ۔ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دے کر بھی کمپرو مائز کر جاتے ہیں ۔ نواز شریف کو ظالم قرار دے کر بھی انکی زلف کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ آصف زرداری سب پر بھاری ہوں نہ ہوں ، انکی سیاسی ضروریات یا اولاد کی محبت ان پر بھاری پڑ جاتی ہے ۔ لیکن انکے جانشین کیا کر رہے ہیں اسکی بارے میں شاید آصف زرداری بھی سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ ایک دن وہ نواز شریف کو مودی کا یار کہتے ہیں تو اگلے روز مریم صفدر سے ملاقات کو پہنچ جاتے ہیں ۔ ابھی کچھ روز پہلے انہوں نے عمران کے ساتھ ساتھ نواز شریف کو بھی سیلیکٹڈ قرار دیدیا اور پھر دو روز قبل مسلم لیگ (ن) سے جپھی بھی ڈال لی ۔ ان اہم جماعتوں کو اگر کوئی مشترکہ وجہ اکٹھا ہونے کی نہیں مل رہی اور ایسے ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے تو پھر یقین کر لیں کہ یہ بے سمت ہو چکے ہیں ۔ انکے لئے ہر آنے والا دن ناکامی ہی لے کر آئے گا ۔ کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کمال ہنر مندی سے مشکل وقت نکال گئی ہے اور اب وہ دن بدن ملک کی معیشت کی طرح سیاسی طور پر مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ عوامی فلاح کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، ترقیاتی کاموں پر ریکارڈ بجٹ خرچ کیا بھی جا رہا ہے اور مزید بڑھانے کا پروگرام بن رہا ہے ۔ عمران خان کا فوکس اب اپنے کئے گئے انتخابی وعدوں پر ہے ۔ سب سے بڑے وعدے ،جنوبی پنجاب صوبہ پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا گیا ہے اسی روز ملک بھر میں بیس ہزار گھروں کی تعمیر کے منصوبوں کا بھی افتتاح کیا گیا ہے ۔ زرعی اجناس کی قیمتوں کے بارے میں بھی اہم فیصلے ہونے جا رہے ہیں جس سے کسان کو براہ راست فائدہ پہنچے گا ۔ اور اس پر قدرت مہربان کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ترین سطح پر آ چکی ہیں ۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کی بے سمتی حکومت کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اسے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔