پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر اور سلسلہ قادریہ کی اُولوالعزم ہستی حضرت بابا بلھے شاہ قادری ؒ(1680ء تا1757ئ) کے 262ویں سالانہ عرس کی اختتامی تقریبات ملکی استحکام اور بالخصوص کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی اوران کی استقامت وآزادی کے لیے خصوصی دُعا کے ساتھ آج اختتام پذیر ہوں گی ۔ حضرت بابا جی ؒ تصوّف وطریقت کے سرخیل اور معرفت وحقیقت کے امام تھے ۔ آپؒ ’’ فنا فی الشیخ‘‘ کے مقام پر فائز تھے ،اپنے مرشد حضرت شاہ عنایت قادریؒ سے والہانہ عشق ومحبت اور وارفتگی کے بے مثال اور لازوال مناظر اور مظاہر آپ ؒ کے کلام میںجگہ جگہ میسر ہیں ۔مولانا روم کی شمس تبریز سے محبت اورامیر خسرو کی اپنے مرشد خواجہ نظام الدین اولیاء سے عقیدت بھی اپنی جگہ معتبر…لیکن اس حوالے سے بلھے شاہؒ کے اسلوب کو شاید کوئی نہ پہنچ سکا۔فرماتے ہیں : شاہ عنائیت بھیت بتائے تاں کُھلے سب اسرار ایک او ر جگہ فرماتے ہیں : بلھے شاہ دی سنو حکایت ہادی پھڑیاں ہوئی ہدایت میرا مرشد شاہ عنایت اوہو لنگھادے پار جد میں سبق عشق دا پڑھیا دریا دیکھ وحدت دا وڑیا گھمن گھیراں دے وچ اڑیا شاہ عنایت لایا پار برصغیر میں مغل عہد اوربالخصوص سولہویں تا اٹھارویں صدی عیسوی میں طریقت کے ’’قادری سلسلے‘‘ کو عروج میسر آیا ہے ، جس کا زیادہ تر مرکز وسطی پنجاب اوربالخصوص لاہور تھا ،حضرت شاہ حسین ؒ لاہوری ، جو مادھولال حسین کے نام سے مشہورہوئے ،پنجابی شاعری کی ممتاز شخصیت تھے ۔آپؒ کی ولادت 1539ء میں لاہور میں ہوئی ۔ لیکن صوفیانہ دبستان میں حضرت بابا بُلھے شاہ کا مقام ومرتبہ اپنے پیشرو بزرگوں سے بہت آگے ہے ، اگرچہ شاہ حسین ؒ کے بعض مصرعوں اور افکار کو حضرت بابا بلھے شاہؒ نے بھی اپنے کلام کی بنیاد اور اساس بنایا، تاہم حضرت بابابلھے شاہؒ اپنے فکر وفن میں بہت نمایاں اور معتبر تھے ۔ دارا شکوہ ،جو سترہویں صدی میں روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کا علمبردار اوربین المذاہب ہم آہنگی اور روشن خیالی کا سرخیل تھا ،حضرت با با بلھے شاہ کے پیرو مرشد ---حضرت شاہ عنایت قادریؒ کابھی عقیدت مند تھا ۔اگر چہ وہ بنیادی طور پر حضرت میاں میرؒ کاخاص نیاز مند اور آپ ؒ کے خلیفہ مُلّا شاہ بدخشی کا مرید تھا ،جن کا مزاربھی لاہور ہی میںحضرت میاں میر ؒ کے آستاں کے نواح میں ہے ، تاہم وہ اس عہد کے دیگر قادری بزرگوں سے بھی رابطے میں رہا، جس کی ایک وجہ یقینا یہ بھی تھی کہ برصغیر میںکوئی بھی اختیار واقتدار خانقاہ نشینوں کی تائید وحمایت کے بغیر مستحکم نہ ہو سکا ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے سلطان محمدغوریؒ ،جوکہ ترائن کی پہلی لڑائی ،1191ء میں ہزیمت اُٹھا چکا تھا ،کو ایک باطنی اشارے کے ذریعے ہندوستانکی فتح کی بشاعت دی ،شمس الدین التمش ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کا مرید اور عقیدت مند تھا۔ علائو الدین خلجی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کی توجہات کا ہمیشہ طالب رہا ، جبکہ ایک مدت تک شاہ جہاں کو اولادِ نرینہ کی طلب اور خواہش رہی ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے دربا پر حاضر ہوکر دعا اور حاضری کی برکت سے ،اللہ تعالیٰ نے اسے داراشکوہ عطا کیا ۔جس کی ولادت بھی اجمیرہی میں ہوئی ۔شہنشاہ اکبر کو حضرت شیخ سلیم چشتی سے بڑی عقیدت تھی ، انہی کی نسبت سے اپنے بیٹے کا نام ’’سلیم ‘‘ رکھا ،جوانہی کے دربار پر منّت کے سبب ، اللہ نے اُسے عطا کیا، اور پھر یہ معمولی گائوں 1571ء میں شاندار تعمیرات کے سبب شہنشاہ ِہندکا پایۂ تخت بن گیا ۔ یہ اوّلین دور’’ چشتی بزرگوں‘‘ کی سطوت وشاہی کی عظیم داستان لیئے ہوئے ہے ۔ اس سے متصل سہروردیہ سلسلے کا مرکز ملتان اور اُوچ میں رہا ، جن کے ساتھ سلاطین وقت کے قریبی روابط تھے ۔ سلسلہ چشتیہ کے بعد ’’قادری‘‘ سلسلے نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔داراشکوہ لکھتا ہے کہ وہ اپنے والد شاہجہان( شہنشاہ ہندوستان)کے ساتھ لاہور میں ، حضرت میا ں میرؒ کے حجرئہ میں حاضر ہوا تھا، آپ نے میرے والد کو فرمایا : ’’ بادشاہ کو رعایا اور سلطنت کی خیر گیری اور خوشحالی کے لیے اپنی جملہ توانائیاں صرف کرنی چاہیے ، اگرعوام آسودہ اور ملک خوشحال ہوگا تو اس سے اس کی فوج مضبوط اور معیشت مستحکم ہوگی ۔‘‘ بلاشبہ شاہجہاں ،اپنے اسی بڑے بیٹے داراشکوہ کو اپنی سلطنت کا وارث دیکھنا چاہتا تھا ۔لیکن اس کی کامیابی پر مسلم راسخ الاعتقاد طبقات اور فیصلہ ساز قوتیں اکبر کے دینی الٰہی کے دوبارہ ظہور کے خدشات کے سبب فکر مند تھیں، جس کے سبب شریعت مآب حلقے اور عقیدہ پرست طبقات کو اورنگ زیب کی حمایت میں عافیت محسوس ہوئی ،جو کہ ابتداء ہی سے نقشبندی سلسلہ تصوّف سے متاثر اورحضرت مجدّد الف ثانی ؒ کے بیٹے خواجہ محمدمعصوم ؒ کا انتہائی عقیدت مند تھا ،بایں وجہ برصغیر کے قدامت پسند امراء میں اس کو قبول عام میسر آنا ---- ایک فطری بات تھیں ۔چنانچہ اورنگ زیب عالمگیر نے داراشکوہ کے’’ لاہور‘‘ کے مقابلے میں حضرت مجدّد الف ثانی ؒ کے’’ سرہند شریف‘‘ کو مضبوط اور معتبر کیا اور پھر عامۃ ُ المسلمین کے علاوہ مسلم اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی نقشبندی افکار ومعمولات کا گرم جوشی سے استقبال کیا ،اور یوں بطور خاص اورنگ زیب عالمگیر کا عہد گذشتہ ادوار کی ’’روشن خالی‘‘ کی بجائے ’’راسخ الاعتقادی‘‘ کا امین بن کر سامنے آیا ،قادری صوفیاء کی خانقاہیں جو بین المذہب رابطے کی علمبردار تھیں، کی اہمیت قدرے کم ہوئی ، اور لاہور میں حضرت میاں میرؒ کے دربار کے لئے جے پور سے آنے والا’’سنگِ سرخ ‘‘ تاریخی بادشاہی مسجد کی تعمیر کے لیے استعمال ہوا، ’’فتاوی عالمگیری ‘‘ لکھی گئی ۔اور یوں برصغیر میں چشتی وسہروردی اور پھر قادری اور اب نقشبندی سلسلے کو عروج میسر آیا۔اس سماجی ، سیاسی اور معاشرتی تناظر میں حضرت بابا بلھے شاہؒ نے اپنے فکر وفن کو عام کیا اور خوب کیا۔ آپ ؒ کا اصل نام سیّد محمد عبداللہ شاہ گیلانی تھا، بنیادی طور پر آپ ؒ کا تعلق اوچ شریف سے تھا ،جوکہ برصغیر میں بخاری اور گیلانی سادات کا مرکز ہے ۔بخاری سادات کے سرخیل سیّد جلال الدین سرخ بخاری1244ء میںاوچ شریف میں تشریف فرما ہوئے ،جبکہ گیلانی سادات کے مورث اعلیٰ مخدوم سیّدمحمد گیلانی ،جن کا وصال 1517ء میں اوچ شریف میںہوا ۔ ان دنوں گیلانی سادات کے چیف مخدوم افتخار گیلانی ہیں ،جو کہ معروف پارلیمنٹرین بھی ہیں ۔ حضرت بابا بلھے شاہ قادری ؒ کا سلسلہ نسب چودہ واسطوں سے شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ،جن کو’’ پیرانِ پیر‘‘ کے لقب سے موسوم کیا جاتا ہے، سے جا ملتا ہے ۔ آ پؒ کے والد سخی شاہ محمد درویش نے اوچ شریف سے جس وقت نقل مکانی کی ، اس وقت بابابلھے شاہؒ ابھی کمسن تھے ،قصورکے معروف علمی شخصیات مخدوم غلام محی الدین اور خواجہ غلام مرتضیٰ سے دینی درسیات کی تکمیل کی ،آپ متبحر عالم اور عربی وفارسی زبان وادب کے ماہر تھے ۔اورنگ زیب کی وفات اور مغل حکومت کے عدم استحکام کے سبب سوسائٹی توڑ پھوڑ کا شکار ہوئی ،جس کے نقوش بابابلھے شاہؒ کے کلام میںکثرت سے ملتے ہیں ۔ دَر کھلا حَشر عذاب دا بُرا حال ہویا پنجاب دا ڈر ہاوئیے دوزخ ماریا سانوں آمل یار پیاریا جدوں اَپنی اَپنی پے گئی دھی ماں نوں لُٹ کے لے گئی مُنّہ بارہویں صدی پَساریا سانوں آ مِل یار پیاریا