دنیا کی ہر سوسائٹی، ملک اور خطے میں’’احتساب ‘‘کا نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود رہاہے۔ وطن عزیز پاکستان میں اس وقت، جس احتساب (Accountability) کا پرچم سربلند ہے، اس کا آغاز نیشنل اکاؤنٹیبلٹی آرڈیننس 1999ئ، کے ساتھ ہوا ، سال 2002ء میں نیب نے اس ادارہ کو مزید موثر بنانے کے لیے ، نیشنل انٹی کرپشن سٹریٹجی کے نام سے ایک جامع حکمت عملی وضع کی، جس میں احتساب کے حوالے سے دنیا کے دیگر ممالک کے ماڈلز کا بھی مطالعہ کیا ، جس کا مقصد نیب کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا اور ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ تھا، تاہم انسانی تاریخ میں بے لاگ احتساب کا جو تصور دنیا کے سامنے اسلام نے پیش کیا، اس کی مثال کوئی اور متمدن اور مہذب معاشرہ پیش نہ کر سکا۔بلاشبہ اسلام ایک ہمہ گیر مذہب اور انسانی زندگی کے لیے مکمل نظام حیات کا حامل ہے، اس لئے آنحضرت ﷺ نے جہاں عقائد ، عبادات، معاملات اور اخلاق وآداب کے بارے میں تفصیلی ہدایات دیں، وہیں اصول حکمرانی اورقواعدِ نظمِ مملکت بھی متعین فرمائے۔ آپ ﷺ کی قائم کردہ اسلامی ریاست کے انتظامی اداروں مثلاً امور داخلہ، تعلقات خارجہ ، مالیات ، عسکری امور، عدلیہ اور تعلیم وتربیت کے ساتھ ایک اہم ادارہ ’’احتساب ‘‘تھا۔ اس ادارے کے تحت لوگوں کے عام اخلاق کی نگرانی واصلاح ،عُمّال کی تربیت اور ان کا محاسبہ ، نیز تجارتی بدعنوانیوں کا انسداد شامل تھا ۔ اس ادارے کی براہ راست نگرانی خود رسول اﷲ ﷺ فرمایا کرتے تھے ۔ چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے بنو اسد کے ابن اللتبیہ کومحاصل کے لیے کلکٹر بنا کربھیجا، جب وہ وصولی کر کے واپس آئے، تو انہوں نے دو قسم کا مال رسول اﷲ ﷺ کے سامنے یہ کہہ کر رکھ دیا، کہ یہ مال مسلمانوں کا ہے اور یہ مال مجھے تحفہ میں ملا ہے ۔ آپ ﷺ نے یہ ملاحظہ فرمایا تو کہا کہ ’’گھر بیٹھے بیٹھے تم کو یہ ہدیہ کیوں نہ ملا‘‘؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے خطبہ میں اس قسم کے لین دین کی سختی سے ممانعت فرمادی ۔ اور فرمایا ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے، ان محاصل میں جو شخص خیانت کرے گا، قیامت کے دن وہ چوری کیا ہوا مال اپنی گردن پر لادے چلا آرہا ہوگا‘‘۔ رسول اﷲ ﷺ ایک عظیم مصلح اور بیدار مغز حکمران تھے ۔ آپ ﷺکو جہاں یہ خیال تھا کہ عہدیدار اپنے فرائض و واجبات کی بجا آوری صحیح طور پر کریں، وہاں اس بات کا بھی خاص اہتمام تھا کہ حکمران و حکام اسلامی نظریہ حیات پر کامل یقین، دینی تعلیمات سے گہری واقفیت اور زیور اخلاق سے آراستہ ہوں، تاکہ جہاں بھی ان کا تقرر کیا جائے وہ کامیاب ثابت ہوں، اور کم از کم وہاں کے باشندے ان کے اخلاق سے شاکی نہ ہوں اور وہ شرع کے مطابق فیصلے کریں۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کا حاکم ہے، وہ ان کا نگران اور ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہے ، تم سے ان کے امور ومعاملات کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھا جائیگا‘‘۔چنانچہ یہ امر واضح ہوا کہ اسلام کا تصور احتساب زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چاہے کوئی کسی ادارے کا سربراہ ہے یا چند افراد پر مشتمل گھر کا سربراہ ۔ حکمران رعایا کے بارے میں۔ والد اولاد کے بارے میں۔ شوہر بیوی کے بارے میں۔ بیوی گھر اور اولاد کی حفاظت وتربیت کے بارے میں جوابدہ ہے ۔ معاشرے میں ایک دوسرے کے معاملات کو متوازن اور معتدل بنانے کے لئے بیدار مغز رویے موجود رہنے چاہئیں ۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں منبر سے جب آپؓنے یہ صدا بلند کی ’’اے لوگو!سنو اور مانو‘‘ایک شخص کھڑا ہوا اور بآواز بلند پکارا کہ ہم آپؓ بات نہ سنیں گے اور نہ مانیں گے، جب تک آپؓ نہ بتاؤ کہ آپؓ بدن پر جو قمیض ہے وہ کیسے بنی ؟جبکہ ہم لوگ تو ایک چادر سے قمیض نہ بنا سکے۔ اس شعور کو بیدار کرنے میں حاکم اور محکوم دونوں برابر تحسین کے مستحق ہیں۔ اس حوالے سے قرآن کا یہ حکم بڑی بنیادی حیثیت کا حامل ہے : ’’بے شک اﷲ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے سپرد کرو، جو ان کے اہل ہیں اور جب بھی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل وانصاف سے فیصلہ کرو‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’خود احتسابی ‘‘کا شعور بیدار کرنے کے لئے واضح طور پر حکم فرما دیا: ’’بلکہ آدمی خود ہی اپنے حال پر پوری نگاہ رکھتا ہے ۔ اگرچہ عذر معذرت کرے ‘‘۔ مسلم افواج کے سربراہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے قصیدہ لکھنے پر شاعر کو 10ہزار درہم انعام کے طور پر عطا کئے۔ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق ؓنے معزولی کا حکم جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ اگررقم سرکاری خزانے سے دی گئی تو بددیانتی ہے اور اگر اپنی جیب سے دی تو اسراف کیا، ہر دو صورتیں ناجائز ہیں۔ ریاست نبوی کی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ احتساب کا ادارہ دور نبوت ہی میں قائم ہوگیا تھا ۔ اہل مغرب کا یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ 1809ء میں سویڈن میں اومبڈسمین (OMBUDSMAN) کے نام سے یہ ادارہ قائم ہوا۔ بلکہ رسول اﷲ ﷺ کا ادارہ احتساب جسے ’’ولایت مظالم ‘‘کا نام دیا گیا تھا، اس اعتبار سے فائق ہے کہ اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، عمال کی اخلاقی تربیت اور تجارتی ضابطہ اخلاق کے اہتمام کے بعد احتساب اور مواخذے کا عمل شروع ہوتا ہے، تاکہ اتمام حجت ہو سکے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے دور خلافت میں قاضی ہی محتسب کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ یہ سلسلہ حضرت عمر فاروق ؓکی خلافت میں قائم رہا اور قاضی القضاۃ ابو موسیٰ اشعری ؓنے محتسب کے فرائض سرانجام دیئے۔ حضرت علی ؓکے دور حکومت میں یہ ادارہ فعال رہا۔ ازاں بعد اگرچہ اموی دور میں اس ادارے کی اہمیت قدرے نظر انداز ہوئی، مگر عباسی دور میں اس کو پھر فعال بنایا گیا اور فوجداری عدالتیں قائم ہوئیں اور ان کا سربراہ ’’صاحب المظالم ‘‘ہوتا تھا۔ علاوہ ازیں ایک بڑی عدالت ’’دیوان النظر فی المظالم‘‘بھی قائم ہوئی ۔ جس میں خلیفہ خود ہی ’’محتسب ‘‘کے فرائض سرانجام دیتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے قائم کردہ نظام احتساب کو مجموعی طور پر اختیار کیاجائے، جس میں احتساب ومؤاخذے کے ساتھ ساتھ ضروریات دین سے واقفیت ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، ملازمین کی گہری دینی اور منصبی علمی واخلاقی تربیت ، نظریہ پاکستان پر کامل یقین اور تجارتی ضابطہ اخلاق کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہو، تاکہ پاکستانی معاشرہ برائیوں سے پاک اور بھلائیوں سے معمور نظر آئے ، اور یہی اسلامی، فلاحی ریاست کا مقصد اولین ہے ۔ صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں، اپنے عمل کا حساب