اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ ہمارے دوست امجد عباس مرزا نے پوسٹ لگائی ’’جعلی سینی ٹائزر بنانے والے زندہ باد۔ یہ تو موت سے بھی نہیں ڈرتے‘‘ یقینا یہ ایک المیہ ہے کہ جب دل سیاہ ہو جائیں۔ یہ عاقبت نااندیش مرزا صاحب کی طنز کو بھی کیا سمجھیں گے۔ سچ مچ یہ لوگ موت سے نہیں ڈرتے کہ شاید ہنوز دلی دور است والا معاملہ ہے۔ یہ لوگ جو ملاوٹ کرتے ہیں اور زندگی بچانے والی جعلی ادویات تیار کرتے ہیں انہیں موت کب یاد ہے۔ ہائے ہائے: اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ چلیے! ہم ان لوگوں کا تذکرہ چھوڑتے ہیں کہ جو مردوں کے کفن تک چرا لیتے ہیں اور معذوروں اور یتیموں تک کا مال کھا جاتے ہیں۔ ہم ان کی بات کیوں نہ کریں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں۔ جو اوروں کا درد رکھتے ہیں جو بے کسوں کا سہارا بنتے ہیں اور زخمیوں کے لئے مرہم کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جو باتیں نہیں کرتے کام کرتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہو‘ اپنے عمل سے ہے۔ مجھے بہت اچھی لگی اقرا کی یہ بات کہ وہ اپنے شہر یاسر حسین کے ساتھ مل کر ڈاکٹرز کے لئے حفاظتی لباس تیار کرنے لگی۔یہ بات اور بھی اچھی لگی کہ سلام پیش کرنے کی بجائے اس کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔ سچ مچ سلام پیش کرنے والوں میں تو میں بھی ہوں۔ یہ بات اپنی جگہ ایک اخلاقی اور تہذیبی اہمیت رکھتی ہے مگر کسی کے لئے آگے بڑھ کر کچھ کر گزرنا اصل بات ہے۔ مزہ تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی: درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں میں بتانا چاہوں کہ شکرانہ بھی اصل میں یہی ہے کہ حرف تشکر سے اوپر اٹھ کر اس کی روح کو سمجھا جائے کہ ضرورت مندوں کے کام آ جائے۔کسی کی مشکل آسان کر دی جائے اور کسی کے لئے آسانی فراہم کر دی جائے۔ سب سے بڑا عمل جسے رب کریم انفاق کہتا ہے کہ اس کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرو‘ اصل میں اس کا شکر اڈا کرنے کے مترادف ہے۔ ہماری جوانیاں ہمارے سانس اور ہماری توانائیاں سب اسی کی دی ہوئی ہیں ان نعمتوں کا شکرانہ بھی یہی ہے کہ یہ اس کے بندوں کے کام آ جائیں۔ امتحان بھی یہی ہے‘ آزمائش بھی یہی ہے اور اسے دیکھنا بھی یہی ہے کس کا کیا رول تھا۔ وبا کے دنوں میں تو انسان پر ذمہ داری اور بھی آن پڑتی ہے‘ فرد کی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔ صد شکر کہ ہمارا معاشرہ اس سے تہی دامن نہیں ہے افراد بھی ہیں جو خوف خدا رکھتے ہیں اور جماعتیں بھی۔ ہمارے کتنے ہی کالم نگاروں نے جماعت اسلامی اور الخدمت کی خدمات کا تذکرہ دل و جان سے کیا ہے کہ انہوں نے وبا کے ماحول میں کس طرح ہر جگہ لوگوں کے لئے راشن مہیا کیا ہے اور طبی خدمات پیش کی ہیں۔ مجھے ان کے کچھ اقدام دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ میرا ان پر ٹرسٹ بہت درست تھا۔ مثلاً انہوں نے ایک اور زبردست کام یہ کیا کہ سبزی کی سستی دکانیں لگائیں۔ مرغزار میں انہوں نے مستحقین کے لئے یہ اہتمام کیا کہ وہ یعنی سفید پوش یہاں آ کر انتہائی سستی سبزی خرید سکتے ہیں۔ ہمارے ملک محمد شفیق بتا رہے تھے کہ جماعت اسلامی نے سبزی لاگت سے بھی کم قیمت پر مہیا کی ہے۔ جو سبسڈی یعنی خسارہ جماعت ادا کرے گی دل سے ان لوگوں کے لئے دعا نکلتی ہے’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘ پھر جب دوسری جانب دیکھتے ہیں تو شرم سے سر جھک جاتا ہے کہ اربوں روپے کے مالک حکومت سے سبسڈی لے کر کھا گئے اور یہ سب کچھ عوام کی جیبوں سے گیا۔ خدا کی قسم میں ان عظیم لوگوں کے لئے لکھ کر طمانیت محسوس کر رہا ہوں جو انسانیت کے لئے اپنا وقت‘ اپنا پیسہ اور صلاحیتیں استعمال کر رہے ہیں۔ کم از کم اور کچھ نہیں وہ بھی مجھے اچھے لگتے ہیں جو اس حوالے سے متفکر ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے وزیر اعظم جو اس حوالے سے کم از کم پریشان ہیں اور تھوڑا بہت عوام کو بھی پریشان کر رہے ہیں۔ بے چارے کیا کریں کہ انہیں چومکھی لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے کہ ان کی بکل سے بھی چور نکل آئے۔ عوام مگر خوش ہیں وہ عمران خاں کی مشکلات کو سمجھنے لگے ہیں۔ خدا کرے کہ کسی طرح یہ گروہ کنٹرول ہو جائیں یا پھر عوام ان کو سبق سکھائے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ ان کی وزارتیں بدلیں نہیں ختم کریں۔ اب وہ خود نہ گھبرائیں۔ عوام ان کے ساتھ ہونگے کتنا پرانا شعر یاد آ گیا ہے خان صاحب کے لئے کسی استاد کا ہے: احسان ناخدا کا اٹھائے مری بلا کشتی خدا پہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں ان لوگوں کا چھوڑیں جو ملک کے لئے ناسور بنے ہوئے ہیں اور اسے گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں آپ باہر کی دنیا دیکھیں اور تو اور مس انگلینڈ مریضوں کے لئے دوبارہ ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کر لیا ہے۔واقعتاً انسانوں کا وہی سوچتے ہیں جو انسان ہوتے ہیں: فقیہہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ایک اور خوشگوار خبر میں نے پڑھی کہ ایک نوجوان اسامہ نے ایک ڈیوائس تیار کی ہے جس سے ایک وینٹی لیٹر 6مریضوں کو آکسیجن دی جا سکے گی۔ اس نے مسلسل 72گھنٹے لگا تار محنت کر کے یہ ڈیوائس تیار کی۔ اس کا باپ بیٹے کی اس کامیابی پر پھولا نہیں سماتا اور فخر کر رہا کہ اس کے بیٹے کی یہ محنت مریضوں کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس کا نام اسامہ ہے کہیں امریکہ برا ہی نہ منا جائے۔ صوبائی ملازمین نے ایک ارب 20کروڑ روپے کرونا فنڈ کے لئے عطیہ دیا ہے۔ کچھ ملک ریاض کو بھی ہوش آیا ہے اور وہ لاہور میں سپرے کا بندوبست کریں گے۔ جو کوئی بھی اس مشکل وقت میں اقدام کرے گا اور حصہ ڈالے گا وہ ہمارا محسن ہو گا۔ چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ بڑے لوگ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہی لوگ چھوٹے ہیں یہ بڑے لوگ نہیںبُرے لوگ ہیں۔ ان کا محاسبہ ضروری ہے۔ فرانزک رپورٹ کے بعد اپریشن کلین اپ ہونا چاہیے۔ آئندہ کے لئے سب کو کان ہو جائیں۔ عبداللہ طارق سہیل کاکالم دیکھ رہا تھا جنہوں نے الخدمت کے ایک منفرد عمل کا ذکر کیا کہ ان اللہ والوں نے لاک ڈائون سے متاثرہ کتے بلیوں کو بھی خوراک ڈالی کہ جو واقعتاً بھوک سے مارے مارے پھر رہے تھے کہ قصاب تک کی دکانیں بند تھیں۔ ویسے یہ عمل اپنی مثال آپ ہی ہے۔