مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ روکنے کے لئے حکومت ایک سے ایک مبارک قدم اٹھا رہی ہے لیکن یہ پختونخوا میں تو ایک ایسا ماورائے مبارک قدم اٹھایا ہے کہ اس پر بس خیر مبارک ہی کہا جا سکتا ہے۔ خبر ہے کہ صوبائی حکومت نے تمام تحصیل داروں کو ضلعی افسران کے ذریعے یہ ’’حکم‘‘ جاری کیا ہے کہ وہ جے یو آئی کے عہدیداروں اور سرکردہ افراد کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کا ریکارڈ ڈی سی آفس بھیجیں۔ یہ ہدایت نامہ وٹس ایپ کے ذریعے بھیجا گیا ہے۔ خبر کے مطابق ان تمام افسروں کو نیب کے آفس میں بلا کر کہا جائے گا کہ وہ آزادی مارچ سے باز رہیں ورنہ ان کی جائیدادیں بے نامی قرار دے کر کارروائی کی جائے گی۔ چلئے جناب ‘ نیب جو سر سے پائوں تک پہلے ہی مصروف ہے۔ اب مزید مصروف ہونے والا ہے یعنی کم از کم پختونخوا کی حد تک یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جو راہ راست پر آ جائے گا۔ اس کی جائیداد ضبطگی کے عمل سے بچ رہے گی اور سب سے بڑھ کر یہ ’’راز‘‘ بھی کھل گیا کہ پچھلے مہینوں سے بے نامی جائیدادوں اور کھاتوں کا جو شہرہ آفاق غل مچا ہوا ہے‘ اس کی ’’کلید‘‘ کیا ہے۔ یعنی سب آپریشن راہ راست کا حصہ ہے۔اس شبے کو تقویت اس امر سے بھی ملی ہے کہ اربوں کھربوں کے بے نامی مل چکے۔ برآمدگی ذرا بھی نہیں ہوئی، نہ کسی ریفرنس میں ان کا ذکر ہے۔ خلاصہ یہ کہ سیدھے ہو جائو ورنہ بے نامی کر دیے جائو گے۔ ٭٭٭٭٭ خیر یہ تو ’’بلا امتیاز‘‘ بے لاگ‘ منصفانہ اور ’’ایکراس دی بورڈ‘‘ کا اہم حصہ ہے اس لئے جب تک جاری ہے‘ بے نامی دریافت ہوتے رہیں گے اور پھرگمنامی کی نذر بھی کئے جاتے رہیں گے۔ ایک مثال تو احد چیمہ اور فواد حسن کے ریفرنس ہیں‘ سال بھر سے زیادہ انہیں جیل گئے ہوگئے ابھی تک ایک سینٹی میٹر کی کارروائی بھی نہیں ہوئی اور سنتے ہیں کہ ہو گی بھی نہیں‘ بس اسی طرح تاریخ پہ تاریخ التوا پر التوا کے فارمولے کے تحت پانچ سال گزارے جائیں گے۔ پھر فیصلہ کیا جائے گا کہ اب کیا کرنا ہے۔ بری کرنا ہے یا مزید بے نامی برآمد کرنے ہیں۔ یہ تو تھا احتساب ‘ فی الحال یہ آزادی مارچ تو اسلام آباد پنڈی کا لاک ڈائون تو خود حکومت نے کر دیا۔ ملک بھرسے کنٹینر منگوا کر سجا دیے گئے ہیں۔ خندقیں کھودنے کا پلان بن گیا ہے۔ گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ کی میراتھن الگ چلے گی‘ انٹرنیٹ‘ موبائل فون بھی بند رہیں گے۔ تاریخی کریک ڈائون ہو گا اور ٹی وی کو حکم ہو گا کہ کریک ڈائون دکھانا مت۔ اچھی بات ہے کریک ڈائون کرنا’’نیکی‘‘ ہے اور نیکی دکھائی نہیں جاتی‘ اسے چھپانے کا حکم ہے‘ چھاپنے کا نہیں۔ لیکن پختونخوا اسلام آباد پر بھی بازی لے گیا۔ صوبے کے شمال سے جنوب تک سارے کے سارے شہروں کے راستے ‘ موٹر ویز‘ جی ٹی روڈ وغیرہ بند کی جا رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کم‘ صوبہ کنٹینر خوا زیادہ لگ رہا ہے۔ شاید دنیا کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے کہ پورا صوبہ کنٹینروں کے محفوظ ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔ سوال ہے ‘ آزادی مارچ والے پھر بھی اسلام آباد پہنچ گئے تو ؟ زمانہ کیا کہے گا؟ ٭٭٭٭٭ بے لاگ احتساب سے یاد آیا‘ تحریک انصاف کے ایک رہنما ڈاکٹر اسد معظم نے فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے ایم این اے پر سو ارب روپے سے زیادہ کرپشن کا الزام لگا دیا ہے۔ یہ اتنی ہی رقم ہے جو اب تک پشاور کی بی آر ٹی پر ٹھکانے لگائی جا چکی ہے۔ الزام کے جھوٹ سچ پر کچھ نہیں کہنا‘ نہ ہی یہ کہنا ہے کہ یہ گھر کے بھیدی کی ایک چھوٹی سی لنکا ڈھانے کی کوشش ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہنا‘ صرف یہ بتانا ہے کہ الزام دھندہ کا ایک فقرہ پڑھ کر مزہ آیا۔ کہا ہے سارے دستاویزی ثبوت نیب کے حوالے کئے جا چکے ‘ پھر بھی وہ کچھ بھی نہیں کر رہا۔ کچھ بھی نہیں کر رہا!ارے میاں‘ نیب سر سے پائوں تک اپوزیشن کا بے لاگ اور بے امتیاز حساب کر رہا ہے‘ کچھ کیوں نہیں کر رہا؟ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ آصف زرداری قیدی نہیں۔ مغوی ہیں۔ان کی گرفتاری اغوا برائے تاوان کا کیس ہے۔ سنا ہے‘ ’’اغوا کاروں‘‘ نے زرداری سے کہا تھا‘ دس بیس ارب روپے دے دو‘ چھوڑ دیں گے۔ جواب میں زرداری نے کہا کہ پیسے درختوں پر لگتے ہیں کیا‘ جائو کچھ نہیں دینے والا۔ اب فرمائیے‘ مغوی برائے تاوان کیا ایسے یہ اخلاق کا مظاہرہ کیا کرتے ہیں بھلا۔ تاوان کے لئے اغوا ہونے کے بعد مغوی کے پاس تعاون کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا‘ پھر زرداری صاحب ’’عدم تعاون‘‘ کیوں کر رہے ہیں؟حکومت بھی کیا کرے۔ معمول کے عدالتی عمل کے تحت’’رقم‘‘ مل نہیں سکتی کہ اس کے لئے ثبوت چاہئیں‘ بے چاری حکومت وہ کہاں سے لائے۔ چنانچہ ’’اغوا برائے تاوان‘‘ نہ کرے تو کیا کرے۔ ویسے بی بی نفیسہ شاہ ‘ زرداری ہی کیا‘ پورا ملک ہی اغوا برائے تاوان نہیں ہو گیا؟ اب دیکھیے ستمبر کے بلوں میں چوتھی بار نرخ بڑھانے کی خبر آ گئی ہے۔ سوا چار روپے پہلے بڑھ گئے‘ اب تین روپے اور بڑھائے جا رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مشیرۂ اطلاعات نے پہلے تو یہ اطلاع دی کہ نواز شریف ہشاش بشاش ہیں۔ پلیٹ لیٹس کم ہونے کا معاملہ محض فلم کی شوٹنگ ہے۔ یعنی کلثوم نواز مرحومہ کی طرح نواز شریف کو بھی کوئی بیماری نہیں‘ بس ڈرامہ کر رہے ہیں۔ پھر پنجاب حکومت نے تصدیق کی کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس صرف دو ہزار رہ گئے ہیں تو فرمایا‘ نواز شریف لوپرن استعمال کرتے ہیں‘ اس لئے یہ بیماری ہوئی۔ لوپرن دنیا بھر میں دسیوں کروڑ افراد روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ لوپرن کھانے سے پلیٹ لیٹس ڈیڑھ لاکھ سے کم ہو کر صرف دو ہزار رہ جاتے ہیں۔ یہ دریافت تو طب شعبے میں نوبل انعام پانے کی مستحق ہے۔ درحقیقت یہ کشش ثقل کے قانون اور نظریہ اضافت سے بھی بڑی دریافت ہے۔ حکومت فوراً انہیں ’’ترقی‘‘دے کر ان کی خدمات عالمی ادارہ صحت کو منتقل کرے۔