یہ لاہور کا نولکھا بازارہے یہ غریب غرباء اور سفید پوشوں کا بازار ہے۔ یہاں کالنڈا بازار کتنوں ہی کے تن ڈھانپتا ہے اور کتنوں ہی کو سردی میں ٹھٹرنے سے بچاتا ہے۔ تین سو روپے کی جینزشرٹ دے کر سفید پوش بابوؤں کے دفتر جانے کی مشکل آسان کرتا ہے۔ یہیں چھوٹی چھوٹی سینکڑوں دکانیں ہیںجن کے بیچ جمشید اقبال کا سگریٹ پان کا کھوکا بھی ہے آس پاس کے دکاندار اورآتے جاتے راہگیر جمشید کی دکان سے پان سگریٹ خریدتے ہیں اور سگریٹ کے دھوئیں میں اپنی فکریں اڑاتے ہوئے اپنے دھندے میں لگ جاتے ہیں۔جمشید ایک خوش اخلاق نوجوان تھا گاہکوں سے مسکراکر ملتااور سگریٹ پان کے ساتھ ساتھ زندہ دل لاہوریوں کی طرح خوبصورت جملے مفت ہدیہ کرتا تھا،اسکی انگلیاں پان کے کتھے سے سرخ رہتی تھیں جو اب بھی سرخ ہی رہتی ہیں لیکن اب اسکے لبوں سے مسکان غائب ہو چکی ہے اور گاہکوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے والے جملے بھی کہیں کھو چکے ہیں،2013ء سے پہلے ایسا نہیں تھا اس سال رمضان میں ایک چھوٹی سی بات نے اسے یکسر بدل دیا۔ 2013ء میں رمضان جولائی کے مہینے میں آئے تھے ،رمضان میں جمشید کے معمولات دیگر دکانداروں کی طرح بدل گئے تھے ،اسکی دکان بھی دن بھر بند رہتی تھی افطار سے ذرا پہلے جب بازار کھلنے لگتے تو وہ بھی دکان کھول لیتا اور ٹوپی پہن کر اگربتی سلگانے کے بعد نعتوں یا قوالی کی کیسٹ لگا کر بیٹھ جاتا ۔اس روز بھی وہ اپنی دکان پر بیٹھا تھا کہ بازار میں اسپیشل مجسٹریٹ نے چھاپہ مار دیا اسے احترام رمضان آرڈیننس میں گرفتار کر لیا گیا،اسپیشل مجسٹریٹ نے اسے کھری کھری سناتے ہوئے شرم دلائی آخرت کی فکر کرنے کو کہا اور پانچ دن کے لئے جیل بھیج دیا وہ بہت گڑگڑایا اس نے بہت منتیں کیں لیکن پولیس والے اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور جیل میں پہنچا دیا۔ یہ پانچ دن اس نے جیل میں کیسے گزارے یہ الگ داستان ہے لیکن سزا پوری ہونے کے بعد جمشید کے ساتھ جو کچھ ہوااس نے دوہرے نظام انصاف کے مکروہ چیچک زدہ چہرے سے نقاب کھینچ کر سڑک پر پھینک دی ۔ جمشید اقبال کو سخت گیر مجسٹریٹ نے پانچ دن کے لئے جیل بھیجا تھا لیکن اسے باہر آنے میں پورے چھ سال لگے سزا پوری ہونے پرجب اس نے جیل کے عملے سے رہائی کی بات کی تو اسے بتایا گیا کہ وہ عدالتی حکم نامے اور روبکار کے بغیر یہاں سے جانے کاسوچے بھی نہیں۔اسے اس قبیل کی دستاویزات کے لئے پورے چھ برس انتظار کرنا پڑا،وہ بے وسیلہ اور بے زر قیدی تھا اسکی پیشی ممکن ہی نہ ہوتی تھی،مجسٹریٹ صاحب اسے جیل بھیج کر اپنا فرض ادا کر چکے تھے اور اب جو ہورہا تھا وہ اسکا’’ نصیب ‘‘تھا۔ عدالتیں مصروف تھیں وہ ایک پان فروش کے لئے کہاں سے وقت لاتیں وہ جیل ہی میں سڑتا رہا چھ برس بعدجا کرکہیں اسکی درخواست ایڈشنل سیشن جج لاہور محمد عامر حبیب تک پہنچی وہ پڑھ کر حیران رہ گئے انہوں نے قیدی کی اپیل کی سماعت کی اور قرار دیا کہ اسے تو احترام آرڈیننس کے تحت سزا ہی غلط ملی ہے،جج نے کہا کہ جمشید اقبال کو جس دفعہ کے تحت سزا دی گئی ہے وہ تو سرے سے آرڈیننس میں موجود ہی نہیں ہے،جج صاحب بھلے مانس انسان تھے ان کے چہرے پر افسردگی تھی ،عدالت نے جمشید اقبال سے غلط سزاپر معافی مانگ کر بری کردیالیکن اسکے چھ برسوں کا کوئی مداوا نہ ہوا نہ کیا جاسکتا ہے۔ بستی رانجھا خان،رحیم یار خان کا ایک نواحی علاقہ ہے یہاں 2002ء میں قتل کی ایک ہولناک واردات ہوئی جس کے الزام میں پولیس نے آٹھ افراد کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا،ان میں دو سگے بھائی غلام قادر اور غلام سرور بھی تھے ،انہیں تعزیرات پاکستان 302کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اورمقدمے بازی شروع ہو گئی، تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی ،ملزمان نے مدعیوں سے رابطے کئے انہیں سمجھایا بجھایا لیکن ان پر قتل کا الزام لگ چکا تھا اور وہ انہیں کسی طرح معاف کرنے کے حق میں نہ تھے ،مقدمہ چلتا رہا ، عدالتیں دونوں کے وکلاء کوسنتی رہیں اور پھر وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ دونوں بھائی قاتل، باقی بے خطا ہیں ،عدالت نے دونوں بھائیوں کو سزائے موت سنادی اور حکم دیا کہ دونوں بھائیوں کو تین تین بار سزائے موت دی جائے،ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیالیکن وہاں بھی وہ مجرم ہی ٹھہرے،اب ان کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھا کہ سپریم کورٹ جایا جائے یہ وہاں بھی پہنچے ،فیصلہ برقرار رہا ،انہوں نے فل کورٹ بنچ میں عرضی لگا دی لیکن سامنے کھڑی موت کو دور نہ کرسکے ، دونوں بھائیوں کو 13اکتوبر 2015ء کے روز علی الصبح پھانسی گھاٹ لے جایا گیا جلاد نے ان کے چہرے پر کپڑا چڑھایا ،گلے میں موٹی مضبوط رسی کاپھندہ ڈالا اورتختے کا لیور کھینچ دیا ،دونوں بھائیوں کے جسم فضا میں جھولے اور لمحے بھر کو تڑپنے کے بعد بے جان ہوگئے انہیں اس جرم کی سزا دے دی گئی جو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا،لاشیںروتے پیٹتے ورثاء کے حوالے کر دی گئیں ،انہوں نے روتے پیٹتے دونوں بھائیوں کو قبروں میں اتارااورتقدیر کا لکھا سمجھ کر چپ ہو گئے۔ ہمارے عدالتی نظام میں خامیوں کے اتنے چھید ہیں کہ یہ چھلنی بن چکا ہے پھر اس پر مستزاد ججوں کی کمی،پنجاب میں ساڑھے سات سو جج صاحبان کی اسامیاں خالی ہیں اور بارہ لاکھ ساٹھ ہزار مقدمات زیر التواء ہیں ۔خیبر پختونخواہ کی ماتحت عدالتوں میں 498 میں سے 433جج موجود ہیں،سندھ میںججوں کی59اسامیاں منصفوں کی منتظر ہیں بلوچستان کی ماتحت عدالتوں میں 57جج صاحبان کی کمی ہے۔ ہائیکورٹ میں15میں سے 9جج ہی دستیاب ہیں،خصوصی عدالتوں اور ٹربیونلز کے پاس 1800مقدمات ہیں اور 77 آسامیاں پرہونا باقی ہیں،سپریم کورٹ کا حال یہ ہے کہ 17جج صاحبان کے پاس37ہزار943مقدمات ہیں ۔۔۔لیکن یہاں صرف ججوں کی کمی اور نظام کا رونا نہیں یہاںتو ماتم اس بات پر ہے کہ جمشید اقبال پانچ دن کے لئے جیل جاتا ہے اور چھ سال بعد اس لئے باہر آتا ہے اسکی اپیل کسی جج کے میز تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔۔۔یہاں دو بھائی پھانسی پر جھول جاتے ہیں اور ان کے لئے فل کورٹ کو وقت 358دن کے بعد ملتا ہے۔ ملک کی 98جیلوں میںکتنے ہی بے وسیلہ اور بے زر نوازشریف روزانہ بیرکوں میںاپنی پیشی کا انتظارلے کر اٹھتے ہیں لیکن کبھی قیدی وین میں انکی جگہ نہیں ہوتی اور کبھی جیل کے عملے کی مٹھی گرم نہ کرنے پر اسے بٹھادیاجاتا ہے ان بے زر اور بے وسیلہ قیدیوں میںکتنے ہی شدید علیل اور بیمار ہیں جو خون تھوکتے تھوکتے ٹھنڈے جسم کے ساتھ خیراتی مردہ خانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔بحیثیت قوم اس المیے پر ہمارے صرف سر نہیں جھکنے چاہئیں ۔ کہیں یہ طبقاتی اور ’’زردارآنہ ‘‘ نظام عدل اس معاشرے کوہڈیوں سمیت چبا ڈالے گا۔