لندن سے ایک خبر موصول ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض خاوند کس قدر وہمی‘شکی اور خود غرض ہوتے ہیں۔ وہ اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی نیک سیرت اور پرہیز گار بیویوں کا ناطقہ یوں بند کر دیتے ہیں کہ وہ بے چاری خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں‘اگر ان دونوں مقاصد میں کامیاب نہ ہوں تو کسی’’واقف کار‘‘ کو ساتھ ملا کر ایسے خاوندوں کا دھڑن تختہ کر دیتی ہیں۔ اس خبر کا پس منظر یہ ہے کہ لندن کے ایک شہری رونالڈ ولد نامعلوم کی پرورش جس قسم کے ماحول میں ہوئی تھی اس کے نتیجے میں وہ انتہائی شکی اور وہمی انسان بن گیا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس قسم کی شخصیت کی تعمیر میں بالعموم ماں کے ’’کردار‘‘ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بہرحال رونالڈ جب سن بلوغت کو پہنچا تو اسے ہر عورت اپنی ماں جیسی یعنی مشکوک کردار کی حامل نظر آئی۔وہ چند دن کے لئے کسی عورت سے راہ و رسم بڑھاتا لیکن جلد ہی متنفر ہو کر بھاگ نکلتا۔وہ کہتا تھا کہ جو عورت مجھ سے دوستی کر سکتی ہے وہ کسی اور سے بھی تعلق پیدا کر سکتی ہے لہٰذا کسی عورت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شادی کرنا چاہتا تھا لیکن جونہی کسی خاتون سے شادی کا امکان پیدا ہوتا اسے ایک آواز سنائی دیتی ’’خبردار یہ غلطی نہ کرنا۔ اس عورت کا کردار ٹھیک نہیں ہے‘‘ رونالڈ اس آواز کا اس حد تک فرمانبردار تھا کہ فوراً شادی کا ارادہ بدل دیتا۔ اسی کشمکش میں وہ ستاون برس کا ہو گیا اور ایک شادی بھی نہ کر سکا۔آخر ایک دوست نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کسی بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرے جو آج کل ریٹائرڈ زندگی بسر کر رہی ہو۔ایسی خاتون سے یہ توقع ہرگز نہیں ہو سکتی کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ فرار ہو جائے گی۔ رونالڈ بالعموم کسی کا مشورہ نہیں مانتا تھا لیکن اس مشورے نے اس پر نہ جانے کیا جادو کیا کہ جھٹ اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو کوئی خاتون ساٹھ سال سے زیادہ کی نظر نہ آئی جب کہ وہ کم سن عورتوں سے الرجک تھا۔ اس نے تلاش جاری رکھی اور آخر کار ایک اکہتر سالہ بزرگ عورت کو ڈھونڈ نکالا۔ اس عورت کا خاوند از خود وفات پا چکا تھا اور اس کے بچے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف تھے۔ رونالڈ نے اس خاتون سے اظہار محبت کیا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اظہار محبت کے جواب میں اس نے رونالڈ کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس کے کان ان الفاظ کو سننے کے لئے عرصے سے ترس رہے تھے۔ رونالڈ نے جواباً کہا’’اس میں شکریہ ادا کرنے کی کیا بات ہے۔ یہ تو میرا فرض تھا‘‘۔یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک انگوٹھی نکالی جو بدقسمتی سے خاتون کی کسی بھی انگلی پر نہ پہنائی جا سکی۔ مجبوراً رونالڈ نے وہ انگوٹھی اس خاتون کے سامنے پڑی ہوئی چائے کی پلیٹ میں رکھ دی اور لگے ہاتھوں ایک انتہائی جذباتی مکالمہ چھوڑ دیا۔ اس مکالمے کا خاطر خواہ اثر ہوا اور دونوں نے آنے والی طویل زندگی ایک ساتھ بسر کرنے کے عہدہ و پیمان کر لئے۔ اگلے ہی روز ان کی شادی ہو گئی اور وہ خاتون اپنی چھڑیوں‘ عینکوں ‘ دانت کی بتیسیوں‘ خضابوں‘ ڈاکٹری نسخوں اور ادویات کو لے کر رونالڈ کے گھر منتقل ہو گئی۔ شادی کے پہلے چوبیس گھنٹے ہنسی خوشی گزرے لیکن جلد ہی خاتون نے دیکھا کہ رونالڈ پاگلوں کی طرح اس کے ساتھ ساتھ لگا رہتا ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ خریداری کے لئے بازار جاتی تو وہ ساتھ ہوتا اور سیلز مین کو گُھور گُھور کر دیکھتا۔ وہ ٹیکسی میں بیٹھتے تو رونالڈ ٹیکس ڈرائیور پر کڑی نظر رکھتا۔ حتیٰ کہ ایک دن طیش میں آ کر اس نے اخبار کے نوعمر ہاکر کو پیٹ ڈالا جو غلطی سے اس خاتون کو بل کی ادائیگی کے لئے کہہ بیٹھا تھا۔اکہتر سالہ شارلٹ‘ رونالڈ کی ان حرکات سے اس قدر تنگ آئی کہ اس نے رونالڈ سے طلاق حاصل کرنے کے لئے مقدمہ دائر کر دیا۔ رونالڈ کو تو پہلے ہی شک تھا کہ اس کی بیوی کا کردار ٹھیک نہیں ہے اور وہ رونالڈ کو چھوڑ کر برائون نامی ایک نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے ایک دن برائون اور شارلٹ کو باتیں کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیا تھا اور برائون کو ماں بہن کی گالیاں بھی دی تھیں۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔ شارلٹ نے رو رو کر اپنی داستان غم بیان کی۔ جج نے بھی رونالڈ پر ایک قہر آلود نظر ڈالی۔ رونالڈ نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا لیکن جج ٹس سے مس نہ ہوا اور اس نے شارلٹ کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا۔رونالڈ روتا ہوا گھر پہنچا اور اب وہ ہر ایک سے کہتا پھرتا ہے کہ شارلٹ عنقریب جج سے شادی کر لے گی کیونکہ جج نے ایک منصوبے کے تحت ان میں علیحدگی کروائی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے اپنے دوست شہزاد کا خیال آیا جو مسٹر رونالڈ ہی کی طرح وہمی ہے۔ اسی وہمی طبیعت کی وجہ سے وہ تین عدد بیویوں کو بھگا چکا ہے اور اب چوتھی کے ’’کردار‘‘ کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔ پنجاب اسمبلی نے جو ’’شوہر کُش‘‘قانون پاس کیا تھا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھیں نم آلود ہو جاتی ہیں۔جونہی اس قانون پر گورنر نے دستخط کئے ۔شہزادکی بیگم نے پہلے تو اپنی ’’پاکبازی‘‘ پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور پھر اللہ کا نام لے کراس کی تمام رشتہ دار خواتین کو آگے دھر لیا اور ان کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات کئے کہ خود شہزاد حیرت زدہ رہ گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شہزاد نے بیوی کے الزامات کی تردید کرنا ضروری نہ سمجھا البتہ یہ ضرور کہا کہ سب خواتین ایک جیسی ہوتی ہیں اور تم بھی ایک خاتون ہو۔ خیر صاحب‘ میں نے یہ سوچ کردوست کو فون کیا اور مذکورہ خبر کے حوالے سے اسے بتائوں کہ شکی اور وہمی شوہر کو کبھی ازدواجی خوشی حاصل نہیں ہو سکتی۔ میرے فون کے جواب میں اس کی ’’ہیلو‘‘ سن کر میں نے کہا: ’’یار شہزاد!آج شام میرے ہاں آ جائو۔ چائے پر گپ شپ کریں گے‘‘۔ ’’آ تو جائوں مگربیگم گھر میں اکیلی ہے۔‘‘جواب ملا۔ ’’اکیلی ہے؟خواجہ صاحب کہاں ہیں؟‘‘میں نے پوچھا ’’دو دن کی چھٹی پر ہے‘‘۔(قارئین کرام‘ خواجہ صاحب سے مراد ایک خواجہ سرا ریشم ہے‘ جسے شہزاد نے بطور چوکیدار رکھا ہوا ہے) ’’یار‘ ایسی صورت حال میں تم گھر کو باہر سے تالا لگا کر کاموں کو نکل جایا کرتے ہو۔ آج بھی ایسا ہی کرو‘‘۔ ’’(آہ بھر کر) اب وہ آزادی کے دن کہاںبیگم کہتی ہے اگر آج کے بعد تم مین گیٹ کو تالا لگا کر غائب ہوئے تو قانون کے تحت تمہیں حوالات اور پھر جیل پہنچا دوں گی۔