سات ارب انسانوں کے سات ارب ایجنڈے ہیں۔ہر ایک کا ایجنڈا جدا، ہر ایک کا مسئلہ الگ اور ہر ایک کی بے چینی کی وجہ مختلف۔ ممبئی کی جھونپڑ پٹی میں رہنے والی بیوہ ماں کو اپنے دو بچوں کے اگلے کھانے کی فکر ہے تو بحر اقیانوس میں بے یارو مددگار پھرتی کشتی میں سوار مہاجر خاندان کو ایک کنارے کی تلاش ہے ۔ لندن یا امریکہ کے کسی پر ہجوم اسپتال میں موذی بیماری سے لڑتا ایک شخص کسی بھی طرح بس زندگی کی چند مزید سانسیں چاہتا ہے تودنیا کے جھمیلوں سے دور صحرائے تھر میں بیٹھا غریب چرواہا اپنی بکریوں کو پر اسرار بیماری سے مرتا دیکھ رہا ہے ۔ان تمام لوگوں کے نزدیک ان کی بے چینی گلوبل وارمنگ اور 2020 میں معیشتوں کے انحطاط پذیر ہونے کی وجوہات جیسے مسائل سے زیادہ بڑی ہیں ۔معروف اسرائیلی مصنف نواہ حراری کی کتاب 21Lessons of 21st Century میں بتائے گئے 21 اسباق سے شاید مذکورہ بالا افراد کو کوئی سروکار نہیں۔ اسی دنیا کے کچھ دوسرے مقامات پر کچھ ایسے بے چین لوگ بھی بیٹھے ہیں جو ممبئی کے جھونپڑ پٹی میں بیٹھی بیوہ عورت، کھلے سمندرکے بیچ بھٹکتی کشتی میں بچوں سمیت سوار خاندان، اسپتال میں آخری سانسیں لیتے شخص اور صحرا میں بیٹھے غریب چرواہے کے دماغ میں چلنے والی کشمکش سے بے خبر کچھ اور چیزوں پہ غور کر رہے ہیں۔ انہیں سوچنا ہے کہ ٹرمپ کا دوبارہ الیکشن جیتنا دنیا پہ کیا اثرات مرتب کرے گا؟ کیا سوشلزم کے نظریے کو دنیا میں دوبارہ مقبولیت مل سکتی ہے ؟دنیا پر کونسی تہذیب غالب ہے؟ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کیسے کم کیا جا سکتاہے ؟ یا پھر یہ کہ امریکہ اور چین کی سرد جنگ میں فتح کس کی اور کب ہو گی اور اس کے عالمی معیشتوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ بعض اوقات ایک ہی چیز پر ایک شخص کی بے چینی مختلف ہوتی ہے تو اسی چیز پر کسی دوسرے کی بے چینی مختلف۔ مثال کے طور پر آپ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوئی ذہانت کو لیجئے جس میں الٹی میٹ مہارت انسان کا ہدف ہے۔ نت نئے روبوٹس روزانہ اپنی مہارتوں کے ساتھ منظر عام پر آتے ہیں۔ اب اس پر ایک انسان کی بے چینی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مصنوئی ذہانت کا مظہر یہ روبوٹ کہیں چُوک نہ جائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ روبوٹ دھوکہ دے دے اور پوری بات نہ مانے ۔ جبکہ اسی معاملے پر میری بے چینی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کہیں یہ روبوٹ ساری باتیں ہی نہ ماننے لگے۔ تو ایک ہی چیز پر دو مختلف لوگوں کی بے چینی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں ۔ پاکستان میں اس وقت بے چینی عام ہے ۔ دنیا بھر کی طرح یہاں بھی سب کا اپنا اپنا ایجنڈا تو ہے ہی ، سب کے اپنے اپنے مسائل بھی ہیں لیکن کچھ مشترک مسائل کو سب نے اپنی مشترک بے چینی کی وجہ بنا لیا ہے یا نہ چاہتے ہوئے ایسا خود بخود ہو گیا ہے ۔ مثلابے چینی کی مشترک وجوہات یہ ہیں۔ کاروبار نہیں ہے ، مہنگائی بڑھ رہی ہے ، بچوں کی فیسوں میں اضافہ ہو گیا ہے ، ادویات مہنگی ہو گئی ہیں، چیزیں خالص نہیں ملتیں، قرضہ چڑھ گیا ہے ، قرض خواہ روز دروازے پر آن کھڑے ہوتے ہیں،سڑکوں پر ریپ کے واقعات ہو رہے ہیں ، بچے محفوظ نہیں ہیں،رات کو باہر نہیں نکلنا، وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان میں اس طرح کی بے چینی اب ایک معمول کی بات ہے ۔ عوام کی اس بے چینی میں ان لوگوں نے مزید اضافہ کیا ہے جو کچھ دوسری باتوں کی وجہ سے بے چین ہیں۔ مثلا جو اپنی منی لانڈرنگ کا حساب نہیں دینا چاہتے ، جو اپنے آمدن سے زائد اثاثوں کی تفصیلات بتانے سے قاصر ہیں، جو ملک میں واپس آ کر مقدمات کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ، جو اپنا نام ای سی ایل سے نکلوا کر باہر جانا چاہتے ہیں،وہ جو اُن کے جعلی اکائونٹس کی باز پُرس کی وجہ سے بے چین ہیں ، وہ جوہار گئے اور اسمبلیوں میں نہیں آ سکے ۔ وہ سب مل کر عوام کی بے چینی کو بڑھا کر اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ آجکل ذاتی طور پر میں بھی بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوں۔ حالانکہ خدانخواستہ نہ بیمارہوں ، نہ مقروض ہوں ، نہ بے روزگار ہوں،نہ خاندان میں سے کسی پیارے کو کوئی مسئلہ لاحق ہے ۔ گاڑی چل رہی ہے ، بچے اسکول جا رہے ہیں، گھر میں روزانہ اچھا کھانا پکتا ہے ، فروٹ یا ڈیزرٹ تقریبا ہر کھانے کے ساتھ میسر ہے ، پھر میں کیوں بے چین ہوں؟ چند دن غور کرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ معاشرے میں بہت زیادہ بڑھ جانے والی بے چینی اور مایوسی میری بے چینی کی وجہ بن گئی ہے ۔ جس کے پاس بیٹھیں ، جس سے بات کریں ، جس سے کاروبار کا حال پوچھ لیں ، وہ بے چین نظر آئے گا۔ یہ بے چینی تنائو میں بدل رہی ہے ، جرائم کو بڑھا رہی ہے ، چوری ، ڈاکے اور ریپ کی طرف اکسا رہی ہے۔یہ بے چینی وزیبل ہو گئی ہے ، سڑک پر دکھائی دیتی ہے ، دکان پر ، بازار میں، اسپتال میں ، یہ ہر جگہ ہے ۔ غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ میں اس بات پر بے چین ہوں کہ معاشرے میں ہر کوئی بے چین کیوں ہے ۔گویا لوگوں کی بے چینی کے اثرات مجھ تک پہنچ رہے ہیں کیونکہ معاشرے میں بڑھنے والی بے چینی مجھ پہ اثر انداز نہ ہو ، یہ ہو نہیں سکتا۔ گذشتہ روز اپنے ایک بزرگ دوست فراست علی صاحب سے اپنی کیفیت کا ذکر کیا، انہیں معاشرے میں بڑھ جانے والی بے چینی پر اپنی بے چینی کے بارے میں بتایا ۔ کہنے لگے اچھا ہے ، اضطراب بہتری کے امکانات پیدا کرتاہے ۔ معاشرہ بے چین ہوکر اپنے لیے راستہ بنائے گا، اپنے لیے حل ڈھونڈے گا، اپنی بے چینی کو ختم کرنے کے راستے تلاش کرے گا۔ لہذا معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات تب تک توشاید ٹھیک ہو جب تک میں کسی اور کی بے چینی کا شکار نہیں بنتا،لیکن اگر سڑک پر چلتا میں یا میرا خاندان کسی دوسرے کی بے چینی کے رسک پر ہے تو پھر معاشرے کی بے چینی کا حل نکالنا ہو گا۔