عرب سلاطین نے بہت پہلے سے اسرائیل کے ساتھ درپردہ مراسم استوارکررکھے تھے جواب وہ پردے ہٹتے چلے جارہے ہیں ۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کی آزادی اورمسجداقصیٰ کی بازیابی کی بنیادپردہائیوں قبل معرض وجودمیں آنے والی اسلامی تنظیم ’’اوآئی سی‘‘کے منہ میں گھنگھیاں کیوں پڑی ہیں۔ اوآئی سی کی خاموشی کسی بڑے دھماکے کاپیش خیمہ ہے ۔اس سے قبل کہ دھماکہ ہوجائے اور ایک کے بعد ایک عرب ممالک اسرائیل کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیںاو آئی سی کے وجودکاباقی رہناکوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عجم کے مسلم ممالک ابھی تک اسرائیل کے خلاف اپنے حق بجانب موقف پرقائم ودائم ہیں اورعرب سلاطین کی طرح بے حسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو 1948سے آج تک اپنے موقف پر ڈٹاہوا ہے کہ اسرائیل ایک ناجائزریاست ہے ، ہمارے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر درج ہے کہ ’’یہ پاسپورٹ سوائے اسرائیل کے دنیا کہ تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے‘‘۔ 13اگست2020 جمعرات کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے ایک مشترکہ بیان کے ذریعے سے اعلان کیا کہ متحدہ عرب امارات اوراسرائیل کے مابین تعلقات قائم ہوئے ۔ جس کے بعد دونوں کے مابین عوامی سفارتی اور معاشی تعلقات استوار ہوئے۔ اب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کے شہریوں کو اپنے اپنے ملک میں داخلے کے لیے ویزے جاری کریں گے۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اپنے ہوائی اڈوں سے براہ راست پروازیں شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔حالیہ برسوں میں، دونوں ممالک کے غیر رسمی تعلقات میں کافی حد تک گرم جوشی آئی ہے اور علاقائی اثر و رسوخ کی مشترکہ بنیاد پر وسیع تعاون کیا ہے۔اسے قبل 2015ء میں، اسرائیل نے ابوظہبی میں ایک سرکاری سفارتی مشن، بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی کے لیے شروع کیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو جرات مندانہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ اس سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین طویل عرصے سے جاری تنازع کا حل ممکن ہوسکے گا۔ متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد بن زائد النہیان نے ایک ٹوئٹ میں کہااس معاہدے کے بعد فلسطینی علاقوں کا اسرائیل میں مزید انضمام رک جائے گا۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ بیشتر ممالک اسے دو ریاستی حل کے حوالے سے ایک ٹھوس قدم کے طور پر دیکھیں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانا ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور یہ ہمارے دو عظیم دوستوں کے مابین تاریخی امن معاہدہ ہے۔ بعدازاں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل اور اس کے خطے میں مسلمان پڑوسیوں کے مابین مزید سفارتی کامیابیاں متوقع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ایسی پیش رفت متوقع ہیں جس کے بارے میں ابھی بات نہیں کرسکتا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے نیتن یاہونے متحدہ عرب امارات کی قیادت کے جھوٹ کی ہانڈی کوبیچ چوراہے پھوڑ ڈالااور صاف صاف کہہ دیاکہ فلسطین کی سرزمین کواسرائیل میں ضم کرنے اوراس پورے علاقے کواسرائیل بنانے کے حوالے انضمام کا ہمارا منصوبہ برقرار ہے اور ہم اپنی زمین پر اپنے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔تاہم فی الحال اس معاہدے کے تحت وہ فلسطینی علاقوں کے اسرائیل میں انضمام میں محض تاخیر کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عبرانی زبان میں ٹوئٹ کیا کہ یہ تاریخی دن ہے۔ نیتن یاہو نے ٹی وی پر کہا کہ اسرائیل اور عرب دنیا کے تعلقات میں آج ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع اور متبادل وزیر اعظم بینی گینٹز نے اسے انتہائی اہم معاہدہ قرار دیا اور عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی اپیل کی۔ اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے امید ظاہر کی ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطی میں قیام امن اور دوملکوں کے حل کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔خیال رہے کہ اس امن معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات یہودی ریاست کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب ملک بن گیا ہے۔ اب تک صرف اردن اور مصر ہی وہ دو ممالک تھے، جنہوں نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ باضابطہ تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ ان دو ریاستوں کے برعکس خلیجی عرب ممالک میں سے کسی کے بھی اسرائیل کے ساتھ کوئی باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے اسرائیلی ریاست کو سرکاری طور پر تسلیم کیا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے کہاکہ اس نے قومی مفاد میں اسرائیل کو قبول کیا ہے۔ جلد ہی بحرین، اومان، قطر، کویت اور سعودی عرب متحدہ عرب کی پیروی کریں گے۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے امن معاہدے پر ردعمل کے طورپرفلسطین میںاس معاہدے کے خلاف مظاہرے ہوئے اوراسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے اس اکھنڈکوحماس نے اسے اسرائیلی قبضے اورجرائم کا صلہ اور سیاہ ترین تاریخی دن قرار دیا ۔خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات اوراسرائیل کے مابین تعلقات سے محض دوروزقبل اسرائیل نے غزہ میں مہاجرین کے کیمپ میں سکول پر حملہ کیا ۔کئی مبصرین کاخیال ہے کہ اسرائیل،متحدہ عرب امارات دو طرفہ معاہدے اور سفارتی کارروائیوں میں انڈیا کابڑاعمل دخل ہے کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات پرکاری ضرب لگانا چاہتا ہے اوراس معاہدے سے دوررس فوائد کشیدکر کے مسئلہ کشمیرسے عالمی توجہ کاخاتمہ چاہتاہے ۔اس طرح بھارت بیک وقت ایک تیرسے دو شکارکرنے کے درپے ہے ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ ہموارکرانے کے لئے اپنی سفارتی کوششیں تیز کرنی چاہئے یادرکھیں اگرپاکستان نے آج اپنے کرداروعمل کامظاہرہ نہیں کیاتو پھرکشمیر مہم کو شدیددھچکالگے گا۔