رائے عامہ کی سکرین پر صرف دو ہی موضوعات گرم ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اور وزیر اعظم کا دورہ روس ۔ اسی میں یوکرائن ، روس، چین اورامریکہ اور اس کے اتحادی بھی سرد و گرم بحث کا حصہ ہیں۔ وزیر اعظم کو وزارت خارجہ اور کہیں اور سے بھی ایڈوائس کی گئی تھی کہ اس دورے سے قبل رُک جائیں ، سوچ لیںکہ روس کے پڑوس میں حالات خاصے کشیدہ ہیں۔ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر جب وزیر اعظم نے طے کر لیا تو اسے بیلنس کرنے کے لیے پاکستانی حکام اسی دوران امریکہ کا دورہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وزیر اعظم کے روس کے دورے کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے ۔ مگر واشنگٹن اور پینٹا گون سے جواب آیا کہ یوکرائن اور روس کے درمیان صورت حال کی وجہ سے یہ ملاقات ممکن نہیں ۔ وزیر اعظم کے کیمپ سے یہ دلیل تھی کہ اس سٹیج پر دورہ ملتوی کرنا دونوں ملکوں کے تعلقات میں دراڑ ڈال دے گا۔ شاید چین بھی ایسا ہی چاہتا تھا۔ سارے خطوں کی بات چھوڑیں ۔ اپنے خطے کی بات کرتے ہیں۔ جوبائیڈن جب صدر نہیںبنے تھے تب وہ افغانستان سے افواج نکالنے کے حق میں تھے۔ اس سے اس خطے میں اُن کی پھنسی ہوئی ٹانگ نکل جاتی اور وہ اپنے مستقبل کے عزائم کو عملی کپڑے پہنا سکتے۔ اچانک یکطرفہ طور پر ہمارے پڑوس سے اپنی فوج نکال لینا امریکی رائے عامہ کو اُن کے خلاف کر رہی تھی۔ کانگرس میں بھی ہنگامہ سا تھا اک برپا۔ مگر جوبائیڈن سمت بدلنا چاہ رہے تھے عالمی بلاکس کی ۔ اُنہیں چین اور روس کے بلند ہوتے سائے نظر آرہے تھے عالمی افق پر ۔ وہ امریکی بالا دستی کے مہرے گلوبل شطرنج پر نئے سرے سے ترتیب دینے کے خواہاں تھے۔ وہ جو اوبامہ اور ٹرمپ نہ کرسکے وہ کر گزرے۔ افغانستان کے پڑوس میں روس ، چین ، پاکستان اور ایران بھی ہیں۔ اگر افغانستان سے امریکی افواج نکل جاتیں ہیں تو پاکستان کی بازو مروڑ کر ایران ، چین اور روس کے خلاف ایک نیا بلاک بنایا جا سکتا ہے۔ آج کا عہد روائیتی جنگوں کا نہیں۔ گوربا چوف کا روس بیٹھے بیٹھے ڈھیر ہو گیا۔ اسلحہ بھی تھا ، ٹینک بھی، ایٹمی میزائل بھی اور فوج بھی، مگر سرکاری بیکریوں پر ڈبل روٹیاں نہ تھیں ۔ یہی ہوتی ہے ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ وار بھی۔ اب امریکی کھیل کا تقاضہ یہ ہے کہ چین کو خیر آباد کہہ دے اور امریکی بلاک میں سعودیہ ، بھارت اور اسرائیل کے ساتھ باہم شیرو شکر ہوجائے۔ مگر پاکستان معترض ہے شدید ۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوں زخمی ہے بے تحاشا۔ دیوالیہ ہونے سے چند ہاتھ دور ہے۔ سی پیک پر پیش رفت آہستہ ہے بہت ہی آہستہ ۔ امریکہ کے پالیسی ساز جن کا چہرہ جوبائیڈن ہے ، مستقبل کے پتے ترتیب دے رہے ہیں۔ پاکستان کا جغرافیہ اسکا سرمایہ بھی ہے اور اسکی مجبوری بھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سعودیہ ہمارا اوکھے ویلوں کا سنگی ساتھی ہوتا تھا۔ اب ملکوں کے تعلقات میں مذہبی بھائی چارہ کم اور مفادات زیادہ نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم اُمہ بھی ترکی، ایران، سعودی عرب کی کولڈ وار دیکھ رہی ہے۔ پاکستان اس وقت دو بلاکس کے درمیان دو ملائوں کی مرغی جیسا ہے۔ چین کے ساتھ سی پیک دور رس نتائج کا حامل ہے۔ ہماری چین سے دوستی ہمالیہ سے زیادہ اونچی ہے اور سمندروں سے زیادہ گہری مگر پاکستان کے امریکہ اور یورپ سے شدید معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ اِن دونوں بلاکس کے درمیان کھیلنا شاید آسان ہوتا اگر ہمارا پرس خالی نہ ہوتا۔ ایک اطلاع کے مطابق ہمارے دفاعی اخراجات کے لیے بھی ہمیں قرضہ لینا پڑ رہاہے ۔ یہ بات الارمنگ ہے۔ ملک کے لیے بھی اور اسکے دفاع اور سلامتی کے لیے بھی ۔ ایسے میں پاکستان کے Movers and Shakers کیا کر رہے ہیں؟ اُن کے مطابق بڑی احتیاط سے فی الحال دونوں بلاکس سے مفاہمت کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین موجود ہے، امریکہ گھور رہا ہے۔ چین کا ایک خاص نوع کا دبائو تھا کہ وزیر اعظم روس گئے۔ روس نے اس دورے کو ویسے ہی کھیلا جیسے ایک بڑا چوہدری کمزور زمیندار سے کھیلتا ہے۔ پوٹن کے پاکستان کے ساتھ ایسے مفادات وابستہ نہیں کہ وہ ہمارے وزیر اعظم کی آمد پر جنگ شروع نہ کرتا۔ ایسے میں ہماری داخلی سیاست بھی شدید کشیدگی اور دھڑے بندی میں تقسیم ہے۔ باخبر پنڈتوں کے مطابق امریکی بلاک ایک خاص لیڈر کو پاکستان میں برسراقتدار دیکھنا چاہتا ہے۔ اسکے ردِ عمل میں دوسرا دھڑا چین اور روس کی پناہ کی تلاش میں بھٹک رہا ہے ۔ پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے ۔ اس کی سلامتی کے مسائل بڑی دور تک معاش سے وابستہ ہیں۔ اسکی اکنامک سلامتی اشارے کر رہی ہے کہ ترجیحات کی ترتیب اور سمت بدل لو ۔ مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ماضی قریب اور ماضی دور میں اپنے پتے اور سمت ایسی طے کی کہ اب سامنے بند گلی نظر آرہی ہے۔ امریکہ پاکستان کو مختلف حوالوں سے مجبور کر رہا ہے ، بلاک کو بدل ڈالو۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کے بہت سے زاویے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ پاک چین تعلقات کی ان جہتوں پر آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ اس موضوع پر ایک کتاب زیر مطالعہ ہے۔ نام ہے اسکا Pak-China Relations in the Twenty-First Century عائشہ صدیق نام کی مصنفہ نے اس میں جو لکھا اُسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ سی پیک واقعی گیم چینجر ہے یا تھا۔ یہ پاکستان کی تقدیر میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ کیا پاکستان پر بڑھتا ہوا امریکی دبائو ایسا ہونے دے گا؟ امتحان ہے ہماری ہر قسم کی لیڈر شپ کا ۔ سول بھی اور فوجی بھی۔