کس کس ادا پہ اس کی میں واروں نہ اپنا دل اس پر ہے ختم خامشی اس پر سخن تمام آرام کا نہ سوچ تو جب تک کہ سانس ہے اک دن اتر ہی جائے گی تیری تھکن تمام ہائے ہائے لفظوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔ بعض اوقات نقطہ ہی کام دکھا جاتا؟ کہ ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے۔ ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا۔ بہرحال یہاں بات چلے گی شبلی فراز کی کہ وہ جب سے سیاست میں ان ہوئے ہیں ایک شور سا مچ گیا ہے۔ ان کے بیانات لوگوں کی توقعات کے برعکس درباریوں سے مختلف نہیں وہ بھی سنگت کرتے محسوس ہوتے ہیں مگر اب کے تو انہوں نے اپنے فرمان عالیہ سے لوگوں کو حیران اور پریشان کر دیا۔ کہتے ہیں کورونا سے اموات ابھی بھی ہمارے تخمینے سے کم ہیں کسی دل جلے نے اس کے ساتھ نیچے لکھ دیا دسو ہن ایٹم بم ای مار دیوو تہاڈے تخمینے پورے ہو جان۔ یعنی آپ اپنی توقعات پوری کرنے کے لئے اب عوام پر ایٹم بم ہی گرا دیں اس پر ہی کئی کمنٹس ہیں سب سے مختصر یہ کہ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ پتہ نہیں سیاق و سباق سے ہٹا ہوا غالب کا شعر کیوں یاد آ گیا: کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی ویسے شبلی فراز کو میرا مشورہ ہے کہ وہ کچھ عرصہ ایسے عجلت زدہ بیانات نہ ہی دیں تو اچھا ہے کہ ایسا نہ ہو لوگ انہیں اسلم رئیسانی ثانی کہنا شروع کر دیں۔ ہمیں تو اس بات کا بھی لحاظ ہے کہ وہ احمد فراز کے فرزند ارجمند ہیں۔ وہ فراز کہ جس کے شعر پر دل دھڑکنے لگتا ہے: ذکر چھیڑتا ہے جب اب غیرت مریم کا فراز گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیسائوں میں اسے کہتے ہیں لفظوں کا استعمال۔ جیسے کہ مرزا توشہ کا دعویٰ ہے کہ ’’گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے۔ وہ لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے‘‘ میں بھی کیا ہوں کہ بات کو لے بیٹھ بیٹھتا ہوں یا بات مجھے لے بیٹھتی ہے۔آج تو میں پٹرول کی کمیابی یا نایابی پر کچھ عرض کرنا چاہتا تھا بلکہ میں تو اس حکومتی کارنامے پر اسے داد دینا چاہتا تھا۔ آپ میری بات پر حیران نہ ہوں۔ میں سچ کہہ رہا ہوں پٹرول کی عدم دستیابی کسی نعمت سے کم نہیں۔ آپ اسے زحمت نہیں رحمت کہہ سکتے ہیں۔ آپ ٹھنڈے دل سے میری بات سنیں کہ یہ بات بڑے راز کی ہے کہ جب سے پٹرول نہیں مل رہا۔ میری مرغزار کالونی میں پٹرول پمپ بند پڑا ہے اور یہ انتہائی معقول بہانہ ہے کہ میں بیگم صاحبہ کو شاپنگ پر لے کر نہیں جا سکتا۔ اسے بھی علم ہے کہ پٹرول نہیں مل رہا۔ یہ صرف ایک فائدہ نہیں کہ شاپنگ وغیرہ کے پیسے بچ گئے۔ آپ کسی سے ملنے نہیں جا سکتے کوئی آپ کی طرف نہیں آ سکتا۔تیسرا فائدہ یہ کہ اس سے سماجی فاصلے بھی پیدا ہو گئے۔ چوتھا فائدہ یہ کہ آپ آرام سے گھر میں رہیے اور کتابیں پڑھیے۔ بس اس سے مجھے خیال آیا کہ اس سے زندگی کی سرگرمیوں میں کتنا تعطل آچکا ہے یا یوں کہیں کہ سرگرمیوں میں کمی آ چکی ہے۔ کم سے کم اختلاط اور کم سے کم ہل چل اس وقت کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ ہر بحران ان کے لئے فائدہ مند ٹھہرا۔ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ کورونا نہ آتا تو یہ حکومت چلی گئی تھی۔ مگر ہم ایسی بات نہیں کریں گے۔ہم تو ان کے قابو میں ہیں: گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا میرے معزز قارئین!آپ جانتے ہیں کہ میں رجائیت پسند ہوں۔ قنوطی نہیں کہ ہر چیز میں کیڑے نکالوں۔ لوگ تو کیڑے نکالنے کے ساتھ ساتھ کیڑے ڈالتے بھی ہیں۔ ہم تو عمران کے ساتھ ہیں ہمیں تو ان کی یہ ادا پسند ہے کہ وہ کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔جو کچھ دماغ میں آتا ہے کر گزرتے ہیں اور اس سے بھی بڑی خوبی یہ کہ وہ کوئی بات یاد نہیں رکھتے یا پھر انہیں یاد نہیں رہتی۔یہ بڑے لیڈر کی نشانی ہوتی ہے کہ ان کی نظر منزل پر ہوتی ہے چاہے اس منزل کے راستے میں ہزار یوٹرن آئیں اور یوٹرن لینا بھی پڑیں۔ بات ایک بار پھر میرے ہاتھ سے پھسل رہی ہے۔ میں تو حکومت کے کارناموں کی تعریف کر رہا تھا ۔ مجھے شبلی فراز کے والد محترم احمد فراز یاد آ گئے کہ چین میں وہ دوستوں کے ساتھ کافی ہائوس میں بیٹھے تھے کسی نے چینی مانگی تو فراز نے ایک چینی بیرے کی طرف اشارہ کر کے کہا ڈال لو ایک آدھ کو اٹھا کر‘ چینی کے نقصانات بیان ہوتے ہیں تو گڑ اور شکر کی اہمیت بڑھ گئی ہے اس سے ایک فائدہ یہ نکلا ہے کہ شکر اور گڑھ کا استعمال بڑھ گیا جس سے سرمایہ دار کی بجائے کسان کا فائدہ ہو گا۔ شکر کی قیمت چینی سے دگنی ہے یعنی 130روپے فی کلو کئی چالاک کسان شکر بناتے وقت چینی کی ملاوٹ کرتے ہیں اب حکومت کیا کرے۔ میں پھر واپس پٹرول پر آتا ہوں کہ آپ میری بات کو مذاق نہ سمجھیں۔ اگر پٹرول کی سپلائی نہ بحال کی جائے تو یہ وبا کے کنٹرول کرنے میں بہت مددگار ثابت ہو گا۔کہ حکومت کو لاک ڈائون نہیں کرنا پڑے گا۔ جب پٹرول نہیں ملے گا تو یہ بالواسطہ لاک ڈائون ہی ہو گا۔ حکومت الزام سے بچ جائے گی۔ ہاں لوگوں کی ایمرجنسی کا خیال کرتے ہوئے ایمبولینس کو چلنے دیں کچھ عرصہ لوگ دالوں پر گزارہ کریں۔ اب سراج الحق صاحب تعلیم میں ہونے والے نقصانات گنوا رہے ہیں کہ بند سکولوں میں لاکھوں اساتذہ بے روزگار ہونے جا رہے ہیں کہا جا رہا ہے کہ ٹائیگرز فورس جیسے شعبے میں خرچ کرنے کی بجائے تعلیم اور فلاح پر خرچ کیا جائے۔ ٹائیگرز فورس کو تو ہم بھی ڈھونڈ رہے ہیں کہ انہوں نے سلیمانی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ تعلیم پر خرچ کی چنداں ضرورت نہیں۔ بچے گھروں میں خوش باش نظر آتے ہیں۔ پڑھ کر کیا کریں گے۔روزگار تو پہلے ہی نہیں۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے پڑھو گے لکھو گے تو ہو گے خراب اور کھیلوں گے تو بنو گے نواب۔ سکولوں والے فیسیں لے رہے ہیں رکشے والے اپنے پیسے کھرے کرتے ہیں۔ سب حکومت کو دعائیں دیتے ہیں والدین کو چھوڑیے وہ تو ایسے ہی شور مچاتے ہیں حکومت نجکاری کی طرف جاری ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ ویسے تو حکومت کا ٹھیکہ بھی آئی ایم ایف کے پاس ہے۔ کورونا کے ہوتے ہوئے تو آپ کچھ کرو نہ کرو کون پوچھے گا۔آپ بحث کر سکتے ہیں کہ ہر زحمت آپ کے لئے رحمت ہے۔ آخری بات یہ کہ خدا کے لئے خان صاحب کسی بھی شے کا نوٹس نہ لیا کریں کہ وہ شے پھر غائب ہو جاتی ہے۔