پانچ اگست کونریندر مودی نے آرٹیکل 370 کی شق 34اے کا خاتمہ کرکے تحریک آزادی کشمیر میں ایک طویل عرصے بعد جو نئی روح پھونکی ہے اْس پر دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر مودی کا نمستے کے ساتھ شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ بہر حال یہ تو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام عالم اور مسلم امہ کیا،خود ہمارے اسلام آباد کے حکمرانوں کیلئے برسوں سے تنازعہ کشمیر ایک کمائوپوت مشغلہ بن گیا تھا۔ جس کشمیر کمیٹی کے چیئرمین حضرت مولانا فضل الرحمان ہوں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باریاں لگانے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو مسئلہ کشمیر سے کتنی دلچسپی ہوگی۔ایک ایسے وقت میں جب ستمبر 1965ء کی جنگ کی بازگشت سارے ملک میں گونج رہی ہے۔کشمیر کامحاذ گرم ہے۔ہمارے حضرت مولانا فضل الرحمان اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاریاں کرکے بھارتی میڈیا میں شہ سرخیاں بنوارہے ہیں۔ اگر حضرت مولانا کا بس چلے تو اسلام آباد پرچڑھائی کیلیے افرادی قوت کم پڑنے پر اہل دیوبند کے مدارس سے کمک منگوا لیں۔ ماشاء اللہ افغان جنگ کے دوران جو امریکی سعودی امداد سے جو ہزارہا مدارس کی فصل اگی تھی۔۔۔اس سے نکلنے والے لاکھوں مسیں بھیگتے نوجوانوں کی ایک پوری فصل وہ سرچشمہ طاقت ہے جس پر حضرت مولانا کا طوطی بول رہا ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام آباد میں خان صاحب کی حکومت کیلیے اگر کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو یہ مولانا کی مدارس بریگیڈ ہی ہے۔ جیلوں میں بے بسی ،لاچاری اور تنہائی کا شکار زرداریوں، شریفوں کی آخری امید بھی اب مولانا ہی ہیں۔ مگر اسلام آباد کے جہاں دیدہ پنڈتوں کا کہنا ہے کہ حضرت مولانا جس تیزی سے چھلانگیں لگاتے ہیں۔ اس سے زیادہ تیزاْن کی قلابازیاں ہوتی ہیں کہ کون نہیں جانتا کہ ان کی ڈور کہاں سے ہلتی ہے۔ یہ لیجیے، خود اپنی دونوں آبائی نشستوں سے بھی جولائی 2018میں شکست کھانے والے حضرت مولانا اپنے دھمکی آمیز بیانوں اور مدارس بریگیڈ کے سبب اتنا وزن تو رکھتے ہی ہیں کہ خود میرا قلم "آتش چنار" سے پھسل کر حضرت مولانا فضل الرحمان کی مدحا میں نکل گیا۔ پہلے بھی لکھ چکاہوں کہ اس وقت کشمیر کا محاذ اتنا گرم ہے اس کی مثال کم از کم 72 برس میں نہیں ملتی۔ 1948ئ۔1965ء اور نوے کی مہم جویانہ جنگوں کا تاریخی پس منظر مختلف ہے۔ مسلسل 32دن سے سرینگر اور اسکے اطراف میں 24گھنٹے کڑے کرفیو کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس وقت تو تنگ آمد بجنگ آمد کا محاورہ صادق آتا ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر گجرات کے سفاک قاتل نریندر مودی تک نے جو کیا سو کیا۔۔۔ ادھر اور ادھرکی کشمیری قیادت سے بھی ہمالیہ سے اونچی غلطیاں ہوئیں اور پھر تاریخ بھری پڑی ہے کہ عوامی لیڈر جب مافوق الفطرت ہیرو کے مسند پر بیٹھ جائیں تو پھر اْن کی غلطیاں قوموں اور ملکوں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں۔ ایک "ہٹلر" کی مثال ہی کافی ہے۔ شیخ محمد عبد اللہ کی سوانح آتش چنار کا بھاری پتھر جب اٹھایا تھاتو خیال تھاکہ ایک دو کالم کھینچ کر آگے بڑھ جائوںگا۔ مگر معذرت کے ساتھ آتش چنار لغوی معنوں میں بائبل کا درجہ رکھتی ہے۔ کشمیر اور اس کے تعلق سے گزشتہ نصف صدی کا ہر چھوٹا بڑا واقعہ اور المیہ اس میں محفوظ کر دیا ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ شیخ عبداللہ کے نوکِ قلم سے اپنے ممدوح جواہر لال نہرو کی کشمیر کی محبت میں دوہری شخصیت کی قلعی کھْل گئی ہے۔۔۔ وہیں،شیخ عبداللہ اپنی آخری عمر میں بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی عظمت کے معترف بھی نظر آتے ہیں۔۔۔شیخ محمد عبداللہ آتشِ چنار کے صفحہ 218پر لکھتے ہیں۔۔ "مسلم لیگ اور نیشنل کانفرنس کے درمیان غلط فہمیوں کی خلیج وسیع ہوتی جارہی تھی۔ میری ہرگز یہ مرضی نہیں تھی کہ ان دو جماعتوں کے درمیان آویزش کا ماحول قائم ہو اور میں نے اسی مقصد سے جناح صاحب کے نام ایک خیر سگالی کا مکتوب بھِی روانہ کیا تھا۔جناح صاحب نے اس کے جواب میں مجھے دہلی آنے اوران سے ملاقات کرنے کی دعوت دی تھی۔ چنانچہ موقع پاکر میں اْن سے ملنے کیلئے دہلی گیا۔ اس وقت بخشی غلام محمد بھی میرے ساتھ تھے۔ جناح صاحب نے ہمیں شرفِ ملاقات بخشا اور یہ ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اْن دنوں وہ اپنی قیام گاہ اورنگزیب روڈ میں مقیم تھے۔ میں نے جناح صاحب کے سامنے تحریک کشمیر کی تفصیل بیان کی اور جن نشیب و فراز سے ہم گزرے تھے اْن کی ساری روداد ان کے سامنے رکھی۔ میں نے عرض کی کہ جموں وکشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے جسمیں پچاس فیصدی مسلمان رہتے ہیں۔۔۔ بنا بریں معاملات کے متعلق ان کا نظریہ ایک اکثریت کا ہی ہوسکتا ہے۔ اقلیت کا نہیں اسکے برعکس وہ یعنی جناح صاحب ہندوستان میں ایک اقلیت کی رہنمائی کر رہے ہیں جن کو تحفظات کی ضرورت ہے دوسری بات میں نے یہ کہی کہ تجربے نے ہم پر یہ ثابت کیا ہے کہ بنیادی مسئلہ مختلف مذاہب کی ٹکر کا نہیں ہے بلکہ سماج میں مختلف طبقوں کی اقتصادی تابراری ہے۔ ایک طرف استحصال کرنے والے ہیں اور دوسری طرف وہ جن کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہماری لڑائی شخصیات سے نہیں بلکہ ایک نظام سے ہے اس میں ہندو اور مسلمان کی تمیز کرنا کوتاہ اندیشی ہوگی۔ جن اصلاحات کا ہم کشمیر میں مطالبہ کررہے ہیں اْن سے سب مذاہب کے پیرو مستفید ہونگے۔ اسلئے یہ مقصد ایک مشترکہ جدوجہد سے ہی پورا ہوسکتا ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ مسلم اقلیت کے ایک عظیم رہنما کی حیثیت سے جہاں ان کا فرض ہے کہ وہ اقلیت کے حقوق کی پوری نگہداشت کریں وہاں اْن کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جو علاج وہ انکے لئے تجویز کررہے ہیں کہیں وہ انہی کے حق میں سِم ِ قاتل نہ بن جائے اور مذہب کے نام پر ایک علیحدہ ہوم لینڈ کے لئے جدوجہد بالآخر کہیں اْن کے لیے مفید ہونے کے بجائے مضر ثابت نہ ہو۔ (جاری ہے)