یار دنیا وہی سمجھتا ہے جو اسے عارضی سمجھتا ہے خامشی خامشی میری توبہ کون یہ ساحری سمجھتا ہے سخن کا ابلاغ آسان نہیں ایک لمحے کو رک کے پوچھ تو لے۔وہ تیری بات بھی سمجھتا ہے۔لکھ لکھ کے تھک گئے مگر کسی پہ کوئی اثر نہیں کہ یہ لوگ کھا کھا کر نہیں تھکتے۔ایسے ہی دل چاہا کہ ان کھد اور سری پائے کھانے والوں کو انہی کی زبان میں بات سمجھائی جائے مگر چربی چڑھے ذہن سے بات کیا راستہ بنائے گی۔ہمارے دوست زاہد حیات کا ایک پیٹو قسم کا دوست آتا تو دو درجن سے کم روٹیاں نہ کھاتا اس کے باوجود اس کی آنکھوں میں اشتہا ہوئی ایک روز زاہد حیات نے کہا یار میری ماں کے تو آٹا گوندھ گوندھ کے گٹ رہ گئے ہیں مگر تم نہیں تھکتے۔ وزیر اعظم نے مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کریں اس اپیل کے بعد وہ لندن سدھار گئے ایسے ہی یاد آیا کہ ہر مشکل وقت میں ایک ڈرامے کا کردار کہتا تھا۔ہم تو چلے سسرال ظاہر ہے لندن ان کے لئے سسرال سے کیا کم ہے کہ ان کی جائیدادیں آل اولاد ہی کیا ان کی عیدیں شبراتیں سب وہیں ہیں۔ہماری قسمت کے فیصلے سبھی وہیں بیٹھ کر وہ کرتے ہیں اب بھی شہ سرخی یہی ہے کہ ن لیگ کی لندن میں اہم بیٹھک ہو گی۔زرداری ہوتے تو وہ دبئی میں اجلاس بلا لیتے پاکستان کے سب سے بڑے مسائل یعنی ایکسٹینشن نہیں ٹینشن ہے شاید نئے آرمی چیف کا تقرر نواز شریف کی مشاورت سے ہو گا گویا نواز شریف ان کے مشیر ہیں اور پھر ایک پھسپھسا جملہ کہ آخری فیصلہ شہباز شریف کا ہو گا۔ایسے منیر نیازی کی پیاری سی نظم یاد آ گئی: پہلی بات ہی آخری تھی اس سے آگے بڑھی نہیں ڈری ہوئی کوئی بیل تھی جیسے پورے گھر پر چڑھی نہیں سراج الحق صاحب نے بجا فرمایا کہ قیامت کی گھڑی میں بھی یہ لوگ مفادات کی سیاست کر رہے ہیں۔بجائے اس کے کہ یہ ڈوبنے والوں کو بچائیں اور ان کا سہارا بنیں یہ ظالم اپنے پیٹی بند بھائیوں کو ڈوبنے سے بچا رہے ہیں کہ یہ نیب زدہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہیں لانڈری سے دھو کر نکال دیا گیا ہے۔50کرپشن ریفرنسز ختم کر دیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے بہانہ ساز کچھ بھی کہہ دیں گے۔ایسے ہی شہباز شریف نے نہیں کہا تھا کہ وہ مشکل سے نکل چکے۔دوسرے لفظوں میں اب مشکل عوام کے لئے ہو گی۔واقعتاً بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں وہی جو جارج ارول نے کہا تھا۔سب جانور برابر ہوتے ہیں اور کچھ زیادہ ہی برابر ہوتے ہیں۔ویسے جانور واقعتاً پیٹ سے سوچتے ہیں۔ہوس ان میں بھی ہوتی ہے مگر ان کے پاس عوام کو لوٹنے کے لئے بے بہا طریقے نہیں ہوتے۔ اب لوگ سڑکوں پر نہیں نکلیں گے تو مار دیے جائیں گے۔ابھی میں اپنا بجلی کا بل دیکھ رہا تھا ہم نے سولر بھی لگوا لیا اور پوری احتیاط کرنے کے باوجود 22ہزار روپے بل ہے ایک تو یونٹ عام 26اور پرائم 32روپے کا ہو گیا ہے ۔گیارہ ہزار بجلی کا بل ہے تو گیارہ ہزار روپے ٹیکس ہے دوسرے لفظوں میں یہ سراسر غنڈہ گردی ہے میں ایک غریب محلے کی ویڈیوز دیکھ رہا تھا کہ عورتیں ڈنڈے پکڑ کر بیٹھی ہیں کہ میٹر کاٹنے والے کی دھلائی کریں گی۔یہ تو گلی گلی ابتری پھیل جائے گی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پر کہ عوام کو سرعام لوٹا جا رہا ہے اور عدلیہ سوموٹو نہیں لیتی! مٹ جائے گی مخلوق خدا تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے کیا کوئی اور آ کر انصاف کرے گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے خان صاحب تو کہہ رہے ہیں کہ پرامن انقلاب کا راستہ روکا تو پھر کھیل سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔اب پتہ نہیں یہ دھمکی ہے کہ پیشکش ہے۔ویسے اب تو عوام بھی بھرے بیٹھے ہیں اوپر سے سونے کے انڈوں کی طلب ہے اور پی ڈی ایم والے سونے کی مرغی ذبح کر بیٹھے۔ ایسے ہی محسوس ہوتا کہ ایسی نہج پر معاملات آ گئے ہیں کہ اگر یلغار ہو گئی تو عوام خاموش رہیں کہ اس وقت بجلی کے بلوں نے گلی گلی صف ماتم بچھا دی ہے ابھی پٹرول کے بڑھنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں وہ لوگ جو بنک نہیں لوٹ سکتے رشوت نہیں لے سکتے چوری اور فراڈ نہیں کر سکتے کہ پتھر کے زمانہ میںپھینک دیے جائیں گے۔ مشرف کوتو صرف دھمکی ملی تھی ابھی تو عملی طور پر ایسا لگ رہا ہے۔ ہم تو یوٹرن کو روتے تھے شہباز شریف تو لٹو کی طرح گھوم رہے ہیں ادھر اعلان کرتے ہیں ادھر واپس لے لیتے ہیں فیول ایڈجسٹمنٹ پہلے سے ڈبل کر دیا گیا حالانکہ اس کے واپس ہونے کا اعلان ہوا تھا ۔خواجہ آصف یہاں ہی تو کہہ دیں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔اصل میں تحریک انصاف والے غلط سمجھتے ہیں کہ ان کی غلط روش پر لکھنا ن لیگ کی حمایت کرنا ہے ان پر کیا لکھیں وہ تو خود ہی چھپتے پھرتے ہیں کہاں گئے وہ تیر جو مہنگائی پر نواز شریف کے دل پر لگتے تھے مریم نواز سے کوئی پوچھے تو۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں اب ہر کوئی اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑے گا اور اس چکر میں کوئی محفوظ نہیں رہے گا ابھی تو کچھ مذہبی عوامل ایسے ہیں کہ جو روبہ عمل اور بندہ سوچتا ہے کہ اب اپنا دین بچانا مشکل ہو جائے گا ۔اہل فکر کو بہت تشویش ہے فی الحال اس موضوع کو چھوڑتے ہیں آخری بات رانا شمیم کی غیر مشروط معافی کی یہ لوگ کس چکنی مٹی کے بنے ہوئے ہیں کوئی دین ہوتا ہے کوئی ایمان ہوتا ہے جناب بیان حلفی سے مکر گئے ویسے بہت دکھ کی بات کہ کوئی جو کچھ مرضی کر لے لوگوں کا وقت ضائع کرنے اور بعد میں غیر مشروط معافی کیا کہنے‘ تلافی ہو گئی کیسے یہ لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے دو تازہ ترین شعر: تو جو ہر شب نیا پیمان وفا باندھتا ہے صبح ہوتے ہی وہ پیمان کہاں جاتا ہے ساری دنیا سے بھی روٹھے تو نہیں راہ فرار چھوڑ کر خود کو یہ انسان کہاں جاتا ہے