وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر عظم نے اپنے خطاب میں ان محرکات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو سینٹ انتخابات میں حکومتی امیدواروں کو ہرانے کے لئے بروئے کار ہوئے۔ سیاست میں بدعنوانی اور پیسے کا عمل دخل ختم کرنے کے متعلق اپنی جدوجہد سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ عزم دہرایا کہ وہ کسی سے بلیک میل ہوں گے نہ روپے اور کرپشن کی سیاست کو پھلنے پھولنے کا موقع دیں گے۔ حالیہ سینٹ انتخابات اس لحاظ سے ہنگامہ خیز رہے کہ لگ بھگ ساری اپوزیشن جماعتوں نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔اپوزیشن رہنمائوں نے چیلنج کے انداز میں بیانات جاری کئے۔ ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے بعض حکومتی اراکین کو ووٹ ضائع کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ ایک ویڈیو میں سندھ کے وزیر کسی سے ووٹ کے بدلے کام کرانے کی بات کر رہے ہیں۔ آئین پاکستان نے سینٹ انتخابات کو بالواسطہ اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرانے کی شرط رکھی۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ خفیہ ووٹنگ کی شرط کو ضمیر کی آواز یا درست امیدوار کے چنائو کے بجائے ووٹوں کی خریدوفروخت کے لئے استعمال کیا گیا۔ گزشتہ چالیس برسوں میں سینکڑوں اراکین اسمبلی نے لاکھوں اور کروڑوں روپے لے کر اپنا ووٹ ایسے امیدواروں کو دیا جو ریاست، آئین پاکستان اور عوام کے مفادات کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد سے مراد وہ ووٹ یا وہ بیان ہے جو کسی وزیر اعظم یا کسی تنظیمی عہدیدار کے خلاف دیا جاتا ہے کہ یہ عہدیدار مزید اس عہدے کو سنبھالنے کے لائق نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا استعمال اکثر اس وقت ہوتا ہے جب صدر مملکت یہ سمجھ لیں کہ وزیر اعظم کو قومی اسمبلی کے اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل نہیں رہی۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم،وفاقی وزیر،وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلا قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ،صوبائی وزیر،وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (جیسے صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔عدم اعتماد کے حوالے سے آئین اور قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط واضح ہیں۔ ان کے مطابق رائے شماری اوپن ہوگی ،رائے شماری ڈویژن کے ذریعے کی جائیگی ،قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کارکے رول 36 کے مطابق وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 91 کی ذیلی شق 7 اور دوسرے شیڈول کے مطابق اعتماد کا ووٹ لے گا۔ شیڈول دوم کے مطابق اعتماد کے ووٹ سے قبل سپیکر ایوان میں پانچ منٹ کے لئے گھنٹی بجوائے گا تا کہ تمام ممبران حاضر ہو جائیں۔ گھنٹی بند ہونے کے بعد لابی کے دروازے بند ہو جائیں گے ، اسمبلی سٹاف داخلی راستوں پر تعینات ہو جائے گا تاکہ ووٹنگ کے اختتام تک کوئی رکن اندر یا باہر نہ نکل سکے۔ سپیکر وزیراعظم پر اعتماد کی قراردادپڑھنے کے بعد ارکان سے کہیں گے کہ اس کے حق میں ووٹ ڈالنے کے خواہش مند شمارکنندگان کے پاس ووٹ درج کروادیں، شمارکنندگان کی فہرست میں رکن کے نمبر کے سامنے نشان لگاکراس کانام پکارا جائے گا۔قواعد کے تحت ووٹ درج ہونے کے بعد ارکان ہال کی لابیز میں انتظار کریں گے، تمام ارکان کا ووٹ درج ہونے کے بعد سپیکرووٹنگ مکمل ہونے کا اعلان کریں گے جب کہ سیکرٹری اسمبلی ووٹوں کی گنتی کرکے نتیجہ سپیکر کے حوالے کر دیں گے۔سپیکر دوبارہ 2 منٹ کے لیے گھنٹیاں بجائیں گے تاکہ لابیز میں موجود ارکان قومی اسمبلی ہال میں واپس آجائیں اورپھر سپیکر قومی اسمبلی نتیجے کا اعلان کردیں گیاور وزیراعظم پراعتماد کی قرارداد منظوریا مستردہونے کے بارے میں صدر مملکت کو تحریری طور پر آگاہ بھی کریں گے۔وزیر اعظم عمران خان کو کئی طرح کے چیلنج درپیش ہیں۔ وہ سیاسی ثقافت کو سانس بند کر دینے والی کرپشن سے پاک کرنا چاہتے اور کم وسیلہ افراد کو پارلیمنٹ میں لانے کے آرزو مند ہیں۔ انہیں احساس ہے کہ پی ٹی آئی کے درجن بھر اراکین نے اپوزیشن امیدوار کو ووٹ دے کر حکومت کو خطرے میں ڈال دیا۔اس صورت حال میں بہتر یہی تھا کہ وزیر اعظم خود کو قومی اسمبلی کے سامنے پیش کرتے اور نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ لیتے۔ وزیر اعظم نے حکومت کا اعتماد بحال کرنے اور اپوزیشن کی جارحانہ حکمت عملی کو رونے کے لئے دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ بار بار کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ کسی بحرانکی صورت میں قومی ادارے اپنا کردار فعال انداز میں انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ جمہوریت کی بات ہو تو اسمبلیاں‘ الیکشن کمشن اور عوامی سوجھ بوجھ کا عمل دخل بنیادی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ انتخابی دھاندلی کے خلاف شکایات کا نظام‘ عوام کی سیاسی تربیت اور تشدد آمیز سیاسی سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ معاشرہ اور ادارے اپنا جمہوری کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ کچھ توجہ اس نظام کے استحکام پر بھی مرکوز کریں جو ان کے وجود کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔وزیر اعظم قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انتخابی اصلاحات ان کی ترجیح ہو سکتی ہیں ۔مزید یہ کہ اگلے چھ ماہ تک وہ بے خوف اپنے فرائض ادا کر سکیں گے ۔