گزشتہ معروضات میں قرآنیات کی تعلیم کی تجویز نہیں بلکہ باقاعدہ سرکاری حکم پر تبصرہ تحریر تھا۔ جس کا اہم پیغام یہ تھا کہ جامعات کی سطح پر قرآنی تعلیم کے لئے یکسر اور بیک جنبش قلم کوئی حکم ہرگز مفید اور ثمر آور نہیں ہو سکتا‘جب تک ابتدائی تعلیم سے لے کر قبل از جامعات کی تعلیم کا مکمل تفصیلی و تنقیدی جائزہ ماہرانہ جائزہ نہ لیا جائے تب تک قرآنی تعلیم کا مقصد کبھی بھی پورا نہیں ہو گا۔ جناب گورنر نے جس موقع پر یہ حکم جاری فرمایا ہے۔ بادی النظر میں ملک میں جس وبائے ناگہانی نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں‘ اس سبب سے کچھ اہل الرائے نے انہیں یہ مشورہ دیا ہو کہ ہمیں رجوع الیٰ القرآن ہونا چاہئے اور پھر جناب گورنر نے اسے صلاح خیر جان کر قبول فرما لیا ہو اور اس پر عمل درآمد کے لئے یہ مبنی برنیت صالح اقدام کیا ہو لیکن اس قلیل وقت میں اس حکم کی عملی افادیت کے لئے پس منظر و پیش نظر میں نتائج پر توجہ کا موقع میسر نہ آیا۔جامعات کے وائس چانسلر صاحبان چونکہ ایک تجربہ کار استاد اور ماہر مضمون ہی ہوتے ہیں۔ نیز اس پر مستزاد ان کا تجربہ انتظامی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کے مشورہ میں بہت سے کارآمد امور برآمد ہوتے ہیں۔تاہم مکمل قرآن کریم کا ترجمہ اور مشروط کہ یونیورسٹی کی ڈگری کے ساتھ فارغ التحصیل نے مکمل ترجمہ القرآن بھی درست طریقے سے پڑھ لیا ہے۔ درسی‘عملی اور علمی روایت کے تناظر میں اس حکم اور اس حکم کی تعمیل میں چند رکاوٹیں ہیں اور نتیجہ خیزی کے اعتبار سے غیر مفید بلکہ ضرر رساں قسم کے نتائج کا ایک بڑا خدشہ ہولناکی لئے ہوئے ہے۔ پہلی اہم بات کہ ابتدائی تعلیم سے لے کر کالجز کی تعلیم کے پس منظر میں یہ غور کرنا ضروری ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے تدریسی اور تجرباتی امور کس حد تک مکمل ہو چکے ہیں۔اس سلسلے میں گزشتہ معروضات میں صراحت موجود تھی کہ پہلی جماعت سے لیکر پانچویں تک ناظرہ کی تعلیم ایک حد تک مکمل ہوتی ہے۔پھر اگلی جماعتوں میں کچھ حصہ حفظ قرآن کا بھی ہوتا ہے۔ دسویں تک مکمل ناظرہ قرآن ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے امتحانی نظام میں ہم یہ ہدف بالکل بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہ سرکاری سکولز کا نظام ہے۔ مقبول سلسلہ مدارس جو بالکل پرائیویٹ ہے۔ اس سلسلے میں ان کے معیارات صفر سے لے کر پھر شمار کی گمنامی میں گم ہو جاتے ہیں۔ گورنمنٹ کی تعلیمی پالیسی کے متوازن بلکہ بسا اوقات اس کے متخالف دینی تعلیم کی پالیسی پوری قوم کے دینی مزاج کو منہ چڑا رہی ہوتی ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر ایک ہی مضمون میں تفصیلی اور بلند درجہ کا مطالعاتی اہتمام ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ریاضیات میں ایم اے کر رہا ہے تو اس کے تمام پرچہ جات یا مختلف کورسز ریاضی کی تفصیل اور وضاحت پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دو سال کے قلیل عرصہ میں وہ علم ریاضی کی مبادیات کو اعلیٰ تفصیلی معیارات سے آشنا ہوتا ہے۔ ان دو سالوں میں اس طالب علم کا اوڑھنا بچھونا ریاضی ہے۔ اگر لسانیات میں ایم اے کیا جائے تو وہ بھی اپنی مصروفیت کا کامل تقاضا طلب کرتا ہے۔ قرآن مجید کی عربی خوانی بھی محض ایک مرحلہ خاص ہے پھر اس کی زبان ‘گرائمراپنی جگہ ایک طویل وقت کا تقاضا کرتا ہے نیز یہ کہ قرآن مجید محض زبان ہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس میں علمی و فنی عبارت کی تفہیم کیلئے ایک علیحدہ سے گرائمر ہے۔ جسے لسان القرآن کے حوالے سے اہل علم بخوبی سمجھتے ہیں۔ قرآن کی گرائمر اور اس کی لغت پر عام عربی لغت سے ہٹ کر لغات تیار کی گئی ہیں۔قرآن کریم کی زبان کو سمجھنے کیلئے حواشی و تفاسیر کا ایک ضخیم ذخیرہ اس کتاب مقدس کی معنویت کے راستے کشادہ کرنے کیلئے معرض وجود میں آیا ہے۔ مراد یہ کہ قرآن فہمی کیلئے ایک بڑی علمی مہارت اور کثیر وقت درکار ہے۔ قرآن کریم مع ترجمہ کی تدریس کے لئے جامعات کے تدریسی نظم و اوقات میں بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جو رئوسائے جامعات کی عقل وسیع اور مجرب شعور سے ہرگز مخفی نہیں ہے۔ نیز ماہر اساتذہ جو قدیم علمی قرآنی تدریس اور جدید طرز تدریس کے مجربانہ سنگم پر حقیقی تدریسی داد مہارت دے سکتے ہوں۔ وہی حضرات اس بلند اور اہم مطلوب مقدس فریضہ کو سرانجام دے سکتے ہیں۔ جناب گورنر اپنی فراصت اور جذبات دینی کی برکت سے سب سے پہلے ایک اہم اقدام یہ کریں کہ قرآنی تراجم میں اعتقادی اور علمی اختلافات کو ختم کر کے ایک متفقہ اردو ترجمے کا اہتمام کرنے کے لئے مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام اور اردو ادب کے کامل اساتذہ نیز جدید و قدیم اردو لغت کے ماہرین پر مشتمل ایک بورڈ فوراً تشکیل دیں اور ایک متفقہ اور مقبول اردو ترجمہ شائع کرائیں۔اس اہم کام کی تکمیل کے بغیر اردو تراجم میں مسلکی اور اعتقادی اختلاف کو بہانہ بنا کر بہت سے اختلاف پسند بلکہ مذہب بیزار لوگ قرآن کریم کی حقیقی تعلیمی پر ہی اپنی بدنیتی کی بنیاد پر اعتراضات کا ایک سلسلہ اٹھائیں گے اور مکدر فضا میں مذہبی بے چینی جنم لے گی۔قرآن کریم کا ترجمہ ضرور پڑھایا جائے لیکن قرآن کی عظمت اور تقدس کا خیال کئے بغیر کوئی اقدم نہ اٹھایا جائے جس سے نااہل اور بدنیت لوگ اپنا مفسدانہ راستہ تلاش کرتے ہیں۔ قرآن کریم اور اس کا ترجمہ ایک محمود اقدام ہے۔لیکن اپنی جامع اور مفید شرائط تدریس کے ساتھ ہو تو بہت ثمر بار ہو گا۔ورنہ ابھی تک سرکاری اداروں میں تراجم قرآن کے بارے میں منظوری کے سلسلے میں عوامی سطح پر اور علمی حلقوں میں بہت سے تحفظات موجود رہتے ہیں اور کچھ عاقبت اندیش لوگ اپنے مسلکی ذوق کی پرواز میں اتنے مدہوش ہوتے ہیں کہ وہ کسی کے مذہبی جذبات کو ہمہ وقت زیرنگیں رکھنے پر مصر ہوتے ہیں اور سرکاری حلقوں میں کذب ‘خوشامد اور فریب کاری کی فنی مہارت کے ساتھ مسلکی اختلافات کا خفیہ بازار گرم رکھنے کا کام جاری رکھتے ہیں۔ پاکستان اور عالم اسلام کی بقا مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور اتفاق میں پوشیدہ ہے۔ یہ ملک عالم اسلام کا قلعہ ہے۔بنیادی اسلامی تعلیمات توحید رسالت و آخرت کو مضبوط کرنے کیلئے حکومت وقت تمام اسلامی مکاتب فکر اور بالخصوص امت کے سواد اعظم کے متفقہ و مشترکہ افکار و خیالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی دینی‘ فلاحی اور علمی اقدام کرے تو بہت احسن ہو روایتی درباری صاحبان جبہ و دستار سے دور رہنا بھی ایک تریاق ہے۔ (ختم شد)