وزیراعظم عمران خان نے آئندہ عام انتخابات کے دوران رائے دہی کے لیے الیکٹرانک مشین استعمال کرنے کی حمایت کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں آئینی ترمیم کا بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آئینی ترمیم میں سینٹ الیکشن کے موقع پر خفیہ بیلٹ کی بجائے شو آف ہینڈز کا طریقہ اختیار کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ الیکشن میں ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال ہو گا۔ انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے لیے انتخابی نظام بہتر بنانے کی بات کی۔ وزیراعظم نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ دوسری جماعتیں بھی اصلاحات کے لیئے ساتھ دیں تاکہ اگلے الیکشن میں ہارنے والا انتخابی نتائج تسلیم کرے۔ آج کی دنیا میں وسیع و عریض ریاستیں قائم ہیں، ایسے میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہوکر اظہار رائے کا حق استعمال کرنا ناممکنات میں سے ہے ۔ جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی جہاں ہر شخص کے پارلیمنٹ میں حاضر ہونے کی بجائے ووٹ کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں جو ووٹروں کی جانب سے ریاستی امور انجام دیتے ہیں۔جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو ۔ پاکستان میں 1970 کے انتخابات میں پہلی بار عام آدمی کو براہ راست ووٹ دے کر اپنے نمائندے چننے کا اختیار ملا ، 1973 میں یہ طریقہ کار آئین کا حصہ بن گیا تاہم ابھی تک اس نظام میں کچھ کمزوریاں ہیں ، جن کے سبب عوام آج بھی جمہوری فوائد سے اس طرح بہرہ مند نہیں ہوپارہے جیسا کہ دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں کے شہری ہوتے ہیں۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے اس لیے یہاں ناممکن ہے کہ کوئی آزاد امید وار از خود وزیراعظم بن سکے ، یہاں سیاسی جماعتیں کثیر تعداد میں نشستیں حاصل کرتی ہیں اور اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے منتخبئیوں(الیکٹ ایبلز) کو اپنی جماعت میں شمولیت کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس سے ایک الگ نوع کی انتخابی خرابی پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستانی جمہوری نظام میں زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت ہی عموماً حکومت تشکیل کرتی ہے ، انتخابی معرکے میں اکثر اوقات فاتح امید وار چند سو یا چند ہزار ووٹ کے فرق سے جیت جاتا ہے اور وہ تمام افراد جنہوں نے ہارنے والے امید واروں کو ووٹ دیے تھے ان کی آواز پارلیمنٹ تک نہیں پہنچ پاتی، اس کا ایک حل یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ نشستوں کی تقسیم فاتح امیدواروں کے بجائے پورے ملک سے حاصل کردہ کل ووٹوں کی بنیاد پر کی جائے، تاہم اس کے لیے آئینی ترمیم اور تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کے لیے مشین یا ای پیپر کا استعمال ہورہا ہے، کچھ برس قبل پاکستان میں آزمائشی بنیادوں پر بار کونسلوں اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوران الیکٹرانک ووٹنگ کا طریقہ استعمال کیا گیا تاہم عام انتخابات میں قدیم طریقے استعمال ہو رہے ہیں جن میں دھاندلی کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور ان پر بے پناہ اخراجات بھی ہوتے ہیں، دوسری جانب ووٹر کو طویل قطاروں میں لگ کر ووٹ ڈالنے کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے جس کے سبب رجسٹرڈ ووٹر ز کی کثیر تعداد الیکشن والے دن گھر سے نہیں نکلتی اور ٹرن آوٓٹ انتہائی کم رہتا ہے۔ اسی سبب بیرونِ ملک مقیم پاکستانی بھی اپنے حقِ رائے دہی سے محروم رہتے ہیں۔ جمہوریت کے تسلسل کے سبب عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے، پہلے وہ علاقے جو کہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کا گھر سمجھے جاتے تھے ، انہی علاقوں میں اب سیاسی جماعتوں سے عوام سوال کررہے ہیں کہ ان کے حقوق کہاں ہیں۔ جمہوریت اسی طرح اپنا سفر آگے بڑھاتی رہی تو امید ہے کہ یہی کرپشن زدہ ماحول ایک نہ ایک دن عوامی دباو پر از خود ملک کی بہتری کے لیے اقدامات شروع کردے گا ۔گزشتہ ماہ ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاونٹ ابیلٹی (ٹی ڈی ای اے) نے انتخابی نظام میں بہتری اور شفافیت کے لیے ایک منفرد فورم قائم کیا جہاں جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین ملک کے موجودہ انتخابی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے تکنیکی حل پیش کریں گے تاکہ ملک میں جمہوریت اور انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد مزید پختہ ہوسکے۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین سے استفادہ کر کے موجودہ نظام میں مزید بہتری لائی جا سکے گی تاکہ عوام کااعتماد انتخابی نظام پرمزید پختہ ہو سکے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس منصوبے کے تحت 16ماہرین پر مشتمل ایک الیکشن ٹیک فورم (ای ٹی ایف) قائم کیا گیا ہے جوٹیکنیکل حل ، سائبر سیکیورٹی ، نیٹ ورکنگ اور ڈیٹا مینجمنٹ سے بخوبی واقف ہے۔ یہ فورم انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی کے موثر استعمال اور اس میں مزید شفافیت لانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پارلیمنٹ کو اپنی سفارشات پیش کرے گا، جس پر عوام اور شراکت داروں کا اعتماد ہو گا۔ تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابی نتائج دھاندلی زدہ ثابت کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ اس نظام میں کئی قدیم خرابیاں عوامی حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پی ڈی ایم میثاق پاکستان کے نام سے اپوزیشن اتحاد بنا کر انتخابی نظام پر اپنے خدشات ظاہر کر رہا ہے۔ وزیراعظم کی پیشکش قبول کر کے اگر اپوزیشن انتخابی اصلاحات کو آئین کا حصہ بنانے کے عمل میں شریک ہوتی ہے تو یہ بجا طور پر پرامن انتقال اقتدار کی روایت مضبوط کرنے کا باعث ہوگا۔