اسلام آباد (خبرنگار) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دہشت گردی مقدمے کے فریقین کے درمیان راضی نامہ ہونے کے باوجود دہشت گردی کے مجرم کو بری نہیں کیا جاسکتا۔چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے انسداد ہشت گردی قانون کے تحت دائر مقدمات میں سزا پانے والے مختلف ملزمان کا مخالف فریقین کے ساتھ صلح ہونے پر بریت کیلئے دائر درخواستوں کا محفوظ فیصلہ صادر کرتے ہوئے قرار دیا کہ دہشت گردی ناقابل معافی اور ریاست کیخلاف جرم ہے اور دہشت گرد کسی شخص کا نہیں بلکہ ریاست کا مجرم ہوتا ہے ۔27صفحات کافیصلہ چیف جسٹس نے خود تحریرکیا جس میں قرار دیا گیا کہ مخصوص حالات اور مقدمات میں فریقین کے مابین صلح یا سمجھوتہ پر مجرم کی سزا کم کرنے پر غور ہو سکتا ہے ۔ کمی خود بخود نہیں بلکہ عدالت کے فیصلے سے مشروط ہوگی ۔سزا میں کمی کیلئے رحم کی اپیل پر غور صدر پاکستان کا آئینی اختیار ہے ۔رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد فریقین کے مابین سمجھوتہ ہوجائے تو جیل سپرنٹنڈنٹ نئی اپیل صدر پاکستان کو بھیجے گا۔دوسری جانب سپریم کورٹ دہشت گردی کی تعریف سے متعلق کیس کا فیصلہ آئندہ پیر سے شروع ہونے والے ہفتے کے دوران سنا ئیگی، چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے ہری پور جیل سے 5 قیدیوں کے بھاگنے پر سزا یافتہ3 پولیس اہلکاروں کی سزائوں کیخلاف اپیل مسترد کردی ہے ۔ کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سر برا ہی میں2 رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے میاں بیوی اور 3 بچوں کے قتل کے ملزم کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کرنے کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی اپیل مسترد کرتے ہوئے قراردیا کہ وجہ عناد معلوم نہ ہو تو بڑی سزا نہیں دی جاسکتی ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنے فیصلوں کو درست کرکے ہمیں خوشی ہوتی ہے ، اگر ہم سے کوئی غلطی ہوئی تو ہم اسے ضرور درست کرینگے ۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے سی ایس ایس امتحان میں سرکاری ملازمین کی عمر کی حد میں رعایت سے متعلق نادرا کی ملازمہ کی درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ معاملے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے ۔