تاریخی دن کے آغاز کے ساتھ ہی ایک دلچسپ حقیقت کا انکشاف ہوا کہ خالق دو جہاں کسی ایک مخلوق کی نہیں‘ ہر مخلوق کی بات سنتا ہے۔ میں تو سمجھتا تھا کہ وہ انسانوں کی بات سنتا ہے۔حیوانوں کی دعا سنتا ہے اور پرندوں کی فریاد بھی سنتا ہے۔ مگر اس سہانی صبح کو نہر کنارے معلوم ہوا کہ وہ نباتات کی بھی سنتا ہے اور اداس و سنسان راستوں پر اگی گھاس کی فریاد کی داد بھی دیتا ہے۔ استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی کا دل میں اتر جانے والا شعر ہے کہ: ترسے کسی کے بوسۂ پا کو بھی عمر بھر سنسان راستوں پر اگی گھاس کی طرح لاہور سے کوئی پچاس منٹ کے فاصلے پر بابا بلھے شاہ کے شہر قصور سے پہلے سنسان راستوں پہ اگی گھاس کی فریاد یوں قبول ہوئی کہ اسے ان قدموں کو چومنے کا شرف حاصل ہوا کہ جو قدم ڈاکٹر امجد ثاقب کی سربراہی میں خیر کے سفر پہ آگے سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ بات توفیق کی ہے! یہ نصیب ہو جائے تو صدیوں کا سفر دنوں اور لمحوں میں طے ہو جائے اور یہ تحفہ ربانی مل جائے تو تہی دستوں کے ہاتھوں سے اربوں اور کھربوں کا رزق حاجت مندوں تک پہنچنے لگے اور اگر توفیق نصیب میں نہ لکھی ہو تو پھر اربوں اور کھربوں کے مالکان ھل من مزید، ھل من مزید کی صدائیں لگاتے رہ جاتے ہیں اور ان کی قسمت میں کسی محتاج کی حاجت روائی لکھی ہوتی ہے نہ مشکل کشائی۔ پھر اچانک یہ صاحبان ثروت حالات کی زد میں آ جاتے ہیں اور تب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ مال و دولت سے زندگی کی ہر راحت نہیں خریدی جا سکتی۔ اخوت کا قرض حسنہ پروگرام اس وقت بلا سود قرض کا دنیا میں سب سے بڑا منصوبہ ہے جو آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ اٹھارہ انیس برس پہلے دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا یہ پروگرام وزیرستان کی گھاٹیوں سے لے کر سندھ و بلوچستان کے ریگستانوں تک اور پنجاب کے ہر شہر اور قریے تک لاکھوں ضرورت مند انسانوں کو غربت کی دلدل سے نکال کر نہایت ہی باوقار انداز میں انہیں صاحب روزگار بنا چکا ہے۔ اس وقت تک یہ قرض حسنہ پروگرام تقریباً 98ارب روپے اپنا کاروبار قائم کرنے کے لئے حاجت مندوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ کارِ خیر کے محیر العقول کارنامے انجام دینے والے ڈاکٹر امجد ثاقب کا چند روز پہلے فون آیا۔ ارشاد ہوا 23مارچ یوم قرار داد پاکستان کی یاد میں اخوت یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی تقریب میں آ سکو گے؟ عرض کیا لوگ تو کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل چلے جاتے ہیں کوچہ اہل محبت میں جانا تو فقیر کے لئے اعزاز ہو گا۔ بڑی سہانی صبح تھی قدم قدم پر در حیرت وا ہو رہا تھا۔ دو رویہ قصور روڈ سے دائیں طرف مڑ کر نہر کے ساتھ ساتھ چند کلو میٹر کے فاصلے پر تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا تھا۔51ایکڑ پر مشتمل یہی اخوت یونیورسٹی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم نے سوچا کہ اگر ضرورت مندوں کے لئے قرضے بلا سود ہونا چاہیے تو پھر لائق مگر کم وسیلہ طلبہ کے اعلیٰ تعلیم بھی تو بلا فیس ہونی چاہیے۔ 23مارچ کی سہانی صبح کو رم جھم جاری تھی۔ سامنے کالج کے طلبہ خاکی پتلون‘ سفید قمیض اور نکٹائی زیب تن کئے قطار اندر قطار ایستادہ تھے۔ تقریب پرچم کشائی کے بعد یوم پاکستان کے حوالے سے جلسے کا آغاز ہوا تو اسٹیج سیکرٹری ڈیرہ بگٹی کا تھا اور تلاوت و ترجمہ کوئٹہ کے دو نوجوانوں نے کیا اور پرجوش تقاریر کرنے والوں میں وزیرستان کے طلبہ بھی تھے۔ یہ نہر‘ یہ سبزہ‘ یہ ہریالی یہ فضا دیکھ کر اور یہ ولولہ انگیز تقاریر سن کر ذہن کئی دہائیاں پیچھے چلا گیا۔ سیٹلائٹ ٹائون سرگودھا میں جہاں ہمارا گھر تھا اس کے پیچھے نہر بہتی تھی اور دور تک فضا سبز گوںتھی۔ والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری نے اسی نہر کے پار ایک بڑا سا قطعہ اراضی حاصل کر کے وہاں قدیم و جدید تعلیم کی یکجائی سے مدرسہ قاسم العلوم کا آغاز کیا تھا۔ آج یہ بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ اس ادارے کے میٹرک کے رزلٹ کو دیکھ کر لوگ داخلے کے لئے بڑی بڑی سفارشیں لے کر آتے تھے۔ایک زمانہ تھا کہ زمینداروں اور تاجروں‘ فوجی و سول افسران اور عوام الناس سب کے بچے اکٹھے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ کوئی تمیز بندہ و آقا نہ تھی۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر چودھری عطا محمد تھے۔ کیا باکمال شخصیت تھے۔ سردیوں میں سوٹ زیب تن کرتے سر پر کلف لگا کلاہ رکھتے‘ جمعہ کے روز سیاہ شیروانی پہنتے۔ بڑی پروقار شخصیت تھے۔ بچوں کو نماز پڑھنے پر انعامات دیتے اور تقاریر اور کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک بار میں نے لڑکپن میں والد محترم سے پوچھا کہ ابا جی! ہمارے پاس وسائل تو ہیں نہیں پھر آپ نے اتنا بڑا ادارہ کیسے قائم کر لیا؟ انہوں نے فی الفور جواب دیا۔ یاد رکھو‘ بڑے بڑے کام توفیق سے ہوتے ہیں مال سے نہیں۔ میں نے یہ بات ڈاکٹر امجد ثاقب سے عر ض کی تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے تجربے کی روشنی میں آپ کے والد گرامی کے قول کی سوفیصد تصدیق کرتا ہوں۔ بڑے فیصلے کرنے کے لئے بڑی قوت فیصلہ کا ہونا ضروری ہے۔ڈیرہ بگٹی کے پرجوش اسٹیج سیکرٹری نے خطاب کے لئے میرا نام پکارا تو میں یکایک خیالات کے تانے بانے سے چونکا۔ سامنے دیکھا تو سحر زدہ کر دینے والے صاحب طرز کالم نگار اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کار جناب ہارون الرشید اور صاحب علم لیفٹیننٹ جنرل (ر) اشرف سلیم صاحب اور دیگر کئی عمائدین موجود تھے عرض کیا کہ میں آپ ’’بزرگوں‘‘ کے لئے نہیں بچوں کے لئے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت کے دو چار واقعات سوچ کر آیا تھا۔ وہی بیان کرتا ہوں۔ بچوں کو 23مارچ کی اہمیت اور قرار داد لاہور کے حوالے سے چند واقعات سنائے جنہیں سن کر بچوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔پاکستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے اخوت یونیورسٹی کے یہ بچے یقین‘ اتحاد اور ڈسپلن کی سچی اور عملی تصویر تھے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک بار پھر ’’اخوت‘‘ کی کہانی کے چند ناقابل فراموش واقعات سنا کر سامعین کے دلوں کو گرمایا اور ان کی آنکھوں کو نمناک کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہم نے اس عظیم درس گاہ کے لئے ایک ہزار روپے کی ایک اینٹ کا تصور دیا جو شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس طرح50کروڑ کا فنڈ اکٹھا ہوا کیا عجب کہ باقی پانچ ہزار اینٹیں کوئی ایک یہ صاحب دل خرید کر ایک ارب کا بجٹ پورا کر دے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے سنسان راستوں پر اگی گھاس کو شاد اور آباد کر دیا ہے اور جنگل میں منگل کا سماں پیدا کر دیا ہے۔