ٹیم کا کپتان امیت کمار ڈکیتی کے الزام میں پچھلے آٹھ سال سے بند تھا ۔ اس کے کیس کی عدالتی کارروائی ایک سال قبل ختم ہوچکی تھی اور جج نے اس کا فیصلہ محفوظ کرکے رکھا ہوا تھا۔ ستم تو یہ ہوا، کہ اہم میچ کے ایک دن قبل امیت کا عدالت سے بلاوا آگیا ، کہ اس کے کیس کا فیصلہ سنایا جائیگا۔ صبح اسکو عدالت روانہ کرتے وقت، جیل حکام و قیدی ،اسکی قید کی مد ت میں اضافہ کی دعا کر رہے تھے۔ مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سیشن جج شیونارائین ڈنگرہ نے اسکو تمام الزامات سے بری کرکے رہائی کا حکم دے دیا۔ ملزم ، جو ٹیم کا کپتان تھا، نے آخری حربہ کے طور پر کورٹ روم میں جج سے درخواست کی کہ اسکو کچھ اور دن جیل میں گذارنے کی اجازت دی جائے۔ ڈنگرہ صاحب کا موڈ اس دن انتہائی خراب تھا۔ وہ اس درخواست سے اکھڑ گئے اور امیت کو فی الفور عدالت کمرے سے ہی رہا کرنے کے احکامات جاری کئے، اور بتایا کہ یہ لڑکا جیل میں شاید کسی گینگ کا حصہ ہے اور حصہ بٹائی کیلئے جیل واپس جانا چاہتا ہے۔ جیل حکام کو حکم دیا گیا، کہ اس کا سامان وغیرہ ، اس کے گھر پہنچایا جائے اور وہ کسی بھی صورت میں جیل کے آس پاس بھی پھٹکنے نہ دیا جائے۔ بغیر کپتان کی ٹیم کا اگلے روز وہی حشر ہوا، جس کا اندیشہ تھا۔ ٹیم بری طرح پٹ کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔ کرکٹ گراونڈ جیل نمبر ایک میں واقع تھا۔ جب ٹیم واپس آگئی، تو اس پر لعن و طعن کی ایسی بارش ہو رہی تھی، کہ پاکستانی یا بھارتی ٹیم کو بھی ہار کر ایسی خفت نہیں اٹھانی پڑتی ہوگی۔انکو مختلف وارڈوں میں گھمایا گیا، جہاں وارڈوں کے صحن میں ان کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان پر قیدیوں نے جوتے ، لاتیں و تھپڑ برسائے۔ ناشتہ اور کھانے میں سبھی نوازشیں بند ہوگئیں۔ اگلے دو روز کے اند ر سبھی کھلاڑیوں کو الگ الگ وارڈوں میں بکھیر کر احساس دلایا گیا کہ وہ قید میں ہیں اور جیل کی عزت و وقار ان کی وجہ سے مٹی میں مل گئی ہے۔ لیکن جیل کی متاثر کن شخصیت بھدرواہ کے عبدالغنی گونی کی تھی۔ پیشہ سے استاد گونی صاحب ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ گجرات دورے پر گئے تھے کہ گجرات پولیس نے انکو گرفتار کرکے ، راجستھان پولیس کے حوالے کیا، جنہوں نے انکو دہلی پولیس کے سپرد کرکے بم بلاسٹ کیس میں فٹ کرکے تہاڑ جیل پہنچا دیا۔ ٹھنڈے مزاج کے حامل گونی صاحب انتہائی اشتعال انگیز حالات میں بھی غصہ کو قابو میں رکھنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔ قیدیوں کی اصلاح کا کام ، جو جیل حکام لاکھوں روپے خرچ کرنے پر بھی نہیں کر پاتے تھے، غنی صاحب چٹکیوں میںکرتے تھے۔ عادی مجرمان ، جیب کترے، چور اور دیگر الزامات میں ملوث افراد ان کی صحبت میں ایسے بد ل جاتے تھے، کہ یقین نہیں آتا تھا۔ وہ خود جیل میں آنے والے افراد کی تعلیم کا بندو بست کرتے تھے ، اورانکی صلاحیت کو دیکھ کر کسب سکھانے کا بھی انتظام کرتے تھے، تاکہ جیل کے باہر جاکر وہ رزق حلال کما سکیں۔ نئے آنے والی قیدیوں کیلئے تولیہ و صابن مہیا کروانا، ان کو ہمت دلانااور انکی کونسلنگ کرنا، انتہائی غریب قیدیوں کیلئے جیل کے اندر قانونی امداد مہیا کروانا وغیرہ، غنی صاحب کا خاصہ تھا۔ وہ ہندو قیدیوں میں بھی خاصے مقبول تھے۔ کئی قیدیوں نے ان کے کردار و اخلاص کی بدولت ان کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا تھا۔ سنگین جرائم میں ملوث بڑے بڑے مجرمان جن سے جیل سپرانٹنڈنٹ بھی پناہ مانگتا تھا، غنی صاحب کے سامنے سر جھکائے معصوم بچوں کی طرح کھڑے ہوجاتے تھے۔ جیل حکام بھی قیدیوں کے جھگڑے نمٹانے کیلئے ان کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ ان کے جیل جانے کے پیچھے شاید قدرت کی یہی منشا تھی۔ اپنی جوانی اور زندگی کی قربانی دیکر ، انہوں نے سینکڑوں افراد کی زندگی بدل کر ان کے مستقبل اور عاقبت کو سنوار دیا۔ ہزاروں مجرموں کو راہ راست پر لانے اور ان کو رزق حلال کمانے پر تیار کیا۔ امید ہے انکی رہائی کے بعد اب حکومت ، عوامی و نجی ادارے غنی صاحب کی اس بصیرت سے فائدہ اٹھا کرباز آباد کاری میں انکا تعاون کرکے ،سماجی خدمات کے شعبے میں ان کے تجربہ کا بھر پور استعمال کریںگے۔ ایسے ہی افراد کیلئے شاید اقبال نے کہا تھا۔ ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند قطرہ نیساں ہے، زندان صدف سے ارجمند ہر کسی کی تربیت کرتی نہیںقدرت مگر کم ہیں وہ طائر کہ ہیںدام قفس سے بہرہ مند (ختم شد)