میاں شہباز شریف کی گرفتاری سے رانا مشہود کا وہ دعویٰ تو باطل ثابت ہو گیا کہ ’’ شریف خاندان کے خلاف مقدمات اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کا نتیجہ ہیں اور میاں شہباز شریف کی کوششوں سے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی دور ہو چکی‘ چھوٹے میاں صاحب کے وزیر اعظم نہ بننے پر مقتدر حلقے پچھتاوے کا شکار ہیں اور اگلے دو چار ماہ میں مسلم لیگ ن کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے‘‘۔ بجا کہ شریف خاندان کے بیورو کریسی‘ سیاسی اشرافیہ اور دیگر حلقوں سے روابط گہرے ہیں‘ جوڑ توڑ کی صلاحیت بے پناہ ہے اور لالچی معاشرے میں مالداروں کی بات پر اعتبار زیادہ کیا جاتا ہے مگر ایک منتخب اور مقبول حکومت کی دوچار ماہ بعد تبدیلی کی خواہش کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔ اور ہماری اسٹیبلشمنٹ ابھی حماقت کی اس سطح پر نہیں اُتری۔ میاں شہبازشریف آشیانہ کیس میں کیسے پھنسے؟ اور اس میں احد چیمہ اور فواد حسن فواد کا کیا کردار ہے یہ اب قصہ ماضی ہے۔ فواد حسن فواد میاں شہباز شریف کی ناک کا بال تھے اور پھر میاں نواز شریف کے ساتھ وزیر اعظم ہائوس کے مدار المہام بنے تو تو ممتاز کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے ایک دو کالموںمیں تنبیہ کی کہ موصوف شریف برادران کے مسعود محمود ثابت ہوں گے مگر کسی نے پروا نہ کی۔ مسعود محمود وہ ذات شریف تھے جسے ذوالفقار علی بھٹو نے بدنام زمانہ ایف ایس ایف کی کمان سونپی‘ سیاسی مخالفین سے انتقام لینے کے لیے بنائی گئی اس ایف ایس ایف کے اہلکاروں پر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کا الزام لگا اور ضیاء دور میں گرفتاریاں ہوئیں تو مسعود محمود وعدہ معاف گواہ بن گئے اور انہوں نے شواہد پیش کیے کہ بھٹو نے احمد رضا قصوری کے قتل کا حکم دیا تھا مگر نشانہ ان کے مرحوم والد بن گئے۔ حکمران جب سرکاری حکام سے اپنے ناجائز احکامات کی تعمیل میں مگن ہوتے ہیں تو انہیں قطعاًیاد نہیں رہتا کہ اقتدار سدا رہنے والی چیز نہیںاور کسی نہ کسی روز یہی غیر قانونی احکامات گلے کا پھندا بن سکتے ہیں‘ جبکہ اس وقت یس سر‘ یس سر کہنے والے شریک جرم سرکاری حکام مخبری کریں گے‘ سلطانی گواہ بنیں گے۔ ریڑھ کی ہڈی سے محروم سرکاری افسران طاقتور حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے‘ انہیں قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر من مانی کے طریقے بتاتے اور غلط کاری پر اکساتے اور یہ باور کراتے ہیں کہ آپ سیاہ کو سفید کرنے کا اختیار رکھتے ہیں‘ اس تابعداری اور اطاعت شعاری کی آڑ میں اپنی اگلی نسلوں کا مستقبل سنوارتے ہیں مگر جب کڑا وقت آتا ہے تو سارا ملبہ باس پر ڈال کر اپنی جان بچاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بڑے بڑے حکمرانوں کے نفس ناطقہ کہلانے والے بیورو کریٹس کے انٹرویوز اور سوانح عمریاں پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ ان سے زیادہ دیانتدار ‘قابل‘ پارسا اور محب وطن سرکاری افسر پیدا نہیں ہوا‘ البتہ ان لوگوں کو جن حکمرانوں کے ساتھ واسطہ پڑا وہ پرلے درجے کے کم عقل‘ بددیانت‘ قانون شکن اورمفاد پرست تھے۔ غلام محمد‘ سکندر مرزا‘ ایوب خان اور ضیاء الحق جیسے حکمرانوں کا امیج مخالفین سے زیادہ صبح و شام ان کے نام کا ورد کرنے والے سول و فوجی ساتھیوں نے خراب کیا اور انہیں برائی کا محور بتایا‘ یہ خود کیا تھے ان کے رفقائے کار سے پوچھیے مگر کسی کو اتنی فرصت کہاں۔؟ پاکستان میں احتساب کا جو عمل شدت سے جاری ہے یہ اگر کسی امتیاز و تفریق اور رو رعائت کے بغیر جاری رہے تو ہم خوش ہمارا خدا خوش۔ آج سابقہ حکمران زد میں ہے کسی نہ کسی دن موجودہ حکومت کے غلط کار لوگ بھی اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے کہ یہ مکافات عمل ہے مگر ہمارے جمہوریت پسند سیاستدان اور دانشور احتساب کے عمل کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں‘ نیب پر اعتراضات وہ لوگ بھی کر رہے ہیں جو کل تک میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے اتفاق رائے سے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی مدح و ثنا میں مشغول تھے اور اسے صدی کا عظیم کارنامہ انجام دے رہے تھے۔ پاکستان کے سوا کسی دوسرے ملک میں یہ منطق نہیں بگھاری جاتی کہ قائد حزب اختلاف کی گرفتاری سے جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے اور نیب حکومت میں شامل افراد کو گرفتار کیوں نہیں کرتا۔ اسرائیل کا وزیر اعظم چودھویں بار تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا۔ کوریا کے ایک سابق صدر کی گزشتہ روز گرفتاری عمل میں آئی اور صدر پارک اپنے منصب پر موجودگی کے دوران گرفتارہوئی مگر دونوں ممالک میں سیاسی نظام کو کوئی خطرہ درپیش ہے نہ حکمران پارٹی اونچے سروں میں جمہوریت کی بربادی کا راگ الاپ رہی ہے۔ دراصل طبقاتی تفریق کے عادی پاکستانی معاشرے میں طاقتوروں کے احتساب کی روائت ہے نہ ’’باشعور‘‘ عوام اور مختلف خاندانوں کے پروردہ دانشور اور سیاسی کارکن عادی ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان بدقسمت ممالک میں شامل ہے جہاں جرائم پیشہ عناصر سیاست اور سیاسی جماعتوں کی آڑ میں اپنا گھنائونا کاروبار کرتے اور حرام کی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر پارلیمانی ایوانوں میں پہنچ کر مزید دولت و اختیار سمیٹتے ہیں۔ منشا بم اس کی تازہ مثال ہے شہر کے کئی سمگلر‘ منشیات فروش‘ قبضہ گروپ اور بلیک مارکیٹئے انہی راستوں سے اسمبلیوں میں پہنچے اور کئی سیاسی جماعتوں کاکاروبار انہی کے دم قدم سے چلتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے اگر اختیارات سے تجاوز نہیں کیا اور نیب نے انہیں بلاوجہ پھنسایا ہے تو خدا اور قانون کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ اب تک ان کی شہرت ایک ایسے شخص کی رہی ہے جو قاعدے قانون کی زیادہ پروا تو نہیں کرتا مگر کرپشن سے متنفر ۔بے قصور ہونے کی صورت میں بہت جلد وہ عوام اور قانون کے سامنے سرخرو ہوں گے لیکن اگر نیب کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو پھر محض اسی بنا پر شور مچانے کا جواز نہیں کہ وہ قائد حزب اختلاف ہیں اور ضمنی انتخابات سے قبل ان کی گرفتاری سیاسی انتقام ہے۔ قانون کی حکمرانی کی امید بندھی ہے اور طاقتور لوگ احتساب کی چکی میں پسنے لگے ہیں تو اسے ایک نئے اور روشن عہد کا آغاز سمجھ کر قبول کرنا چاہیے کہ پاکستان کی بقا و استحکام اب قانون کی حکمرانی سے مشروط ہے۔ طبقاتی امتیاز کی تباہ کاریوں کے خاتمے کی واحد صورت یہی ہے کہ فوج‘ عدلیہ‘ نیب اور پارلیمنٹ یک جان و دو قالب ہو کر طاقت‘ دولت‘ اقتدار اور اختیار کے زور پر قانون کی مٹی پلید اور اپنے حلف کی نفی کرنے والوں کی سرکوبی کریں۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ‘ تحریک انصاف کی تمیز سے بالاتر ہو کر احتساب کا جھکڑ چلے اور جس نے جرم کیا ہے اس کی سزا بھگتے‘ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اپنے کرپٹ لیڈروں کا دفاع نہیں کر سکتیں دبائو بڑھے گا اور بڑھتا ہی چلا جائیگا۔مجھے سال رواں اپریل میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بریفنگ یاد آ رہی ہے جس میں انہوں نے صحافیوں سے کہا تھا کہ ’’جس نے غلط کام کیا ہے وہ فوج سے ہے‘ پی ٹی آئی سے ہے‘ لیگی ہے یا پپلیاںاس کا احتساب ہونا چاہیے اور ہو گا تاکہ یہ ملک نارمل ہو اور ترقی کرے‘‘ باری کا بخار اُتر رہا ہے اور ڈیل کی سرگوشیاں دم توڑ رہی ہیں‘ پاکستان واقعی بدل رہا ہے مگر بہت سوں کو یقین آتے آتے ہی آئے گا۔